سعودی فوج میں خواتین کی شمولیت / وژن 2030 یا یمن جنگ کے نقصانات؟


سعودی عرب میں پہلی مرتبہ دفاع کے شعبے میں خواتین کیلئے روزگار کے مواقع کی کیا حقیقت ہے؟

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق سعودی فوج میں خواتین کی شمولیت کی اجازت کے اقدام کو یوں تو سعودی والی عہد محمد بن سلمان کے “وژن 2030” پروگرام کے تحت سعودی عرب کو ایک لبرل اور آزاد خیال ریاست کے طور پر پیش کئے جانے کیلئے اٹھائے جارہے ہیں تاہم حقائق پر مبنی عوامل میں سے ایک یہ بھی ہے کہ یمن جنگ میں سعودی افواج کو بھاری مالی کے ساتھ ساتھ ناقابل تلافی جانی نقصان بھی اٹھانا پڑ رہا ہے۔

لہذا جہاں ایک طرف سعودی عرب کی معیشت زبوں حالی کا شکار ہے وہیں اس کی فوجی نفری میں بہت کمی واقع ہوئی ہے جبکہ سعودی فوج کا زیادہ تر انحصار کرائے کے غیر ملکی فوجیوں پر ہے۔ اس خلیج کو پر کرنے کے لئے بھی سرزمین حجاز کو سعودی خواتین کی بطور فوجی خدمات درکار ہیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ ہفتے ہی تقریباً 1300 سعودی فوجیوں نے یمنی فوج اور رضاکاروں کے سامنے ہتھیار ڈال دئے تھے۔ جبکہ یحیی سریع کے مطابق کارروائی کے دوران اہم کمانڈروں سمیت کم از کم 500 سعودی فوجی مارے گئے تھے۔ اس کارروائی میں سعودی عرب کو اپنی بکتر بند گاڑیوں اور بڑی مقدار میں جدید اسلحے سے بھی ہاتھ دھونا پڑا تھا۔

یمنی سرکاری فوج نے سعودی اتحادی اہلکاروں کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی کی ویڈیو اور تصاویر بھی جاری کردی تھیں۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال سعودی عرب نے اینٹی نارکوٹکس، کرمنل انویسٹی گیشن، کسٹمز اور پریزن سسٹم جیسی پبلک سیکیورٹی سے جڑی سیکیورٹی فورسز میں خواتین کو بھرتی کرنے کی اجازت دی تھی۔ اسی دائرہ کار کو بڑھاتے ہوئے انہیں فوج میں شمولیت کی بھی اجازت دے دی گئی ہے۔

تحریر: سید عدنان قمر جعفری

(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)