پاکستان آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف سے ہوشیار رہے!!


آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف جیسے اداروں کے ساتھ پاکستانی حکام کی بات چیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ادارے اپنے اصل اہداف سے ہٹ کر استمعاری طاقتوں کے مفاد کےلئے پاکستان پردباؤ ڈالنا چاہتے ہیں۔

آئی ایم ایف کیا ہے؟

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ یا آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ:IMF) ایک عالمی مالیاتی ادارہ ہے جو ملکی معیشتوں اور ان کی باہمی کارکردگی بالخصوص زر مبادلہ، بیرونی قرضہ جات پر نظررکھتا ہے اور ان کی معاشی فلاح اور مالی خسارے سے نمٹنے کے لیے قرضے اور تیکنیکی معاونت فراہم کرتا ہے۔

پاکستان اور آئی ایم ایف

پاکستان آزادی کے محض 3 سال بعد آئی ایم ایف کا باقاعدہ طور پر رکن بنا اور 1959 میں آئی ایم ایف سے مختلف قسم کے مراعات حاصل کرنے میں کامیاب رہا اور گذشتہ 69 برسوں میں قرضے کے حصول کے لیے 21 مرتبہ آئی ایم ایف گیا اور سال 2011 میں آئی ایم ایف سے ملکی تاریخ کا سب سے بڑا قرضہ یعنی 6 ارب ڈالرحاصل کرلیا۔

 وزیراعظم عمران خان حکومت میں آنے سے قبل سابق حکمراںوں پر آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پرسخت تنقید کرتے رہے اور حکومت میں آنے کے بعد ملکی معاشی حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے بھی ایک بار پھر آئی ایم ایف میں جانے کا فیصلہ کیا تاہم آئی ایم ایف نے حکومت پاکستان کو نہایت سخت شرایط کے پیش نظر کچھ رقم فراہم کرنے کی حامی بھرلی۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے شرائط اکثر اوقات مقروض ملک کے معاشی حالت کو بہتر بنانے کے بجائے اسے بگاڑتے ہیں۔

آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستانی حکام کے مذاکرات میں امریکی دخالتیں

پاکستانی حکام اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات میں امریکی مداخلتیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں امریکی وزیرخارجہ نے آئی ایم ایف پر زور دیا کہ وہ پاکستانی حکومت کو بیل آؤٹ پیکیج فراہم نہ کرے، کیونکہ کہ پاکستان اس پیکیج سے سی پیک کے حوالے سے حاصل کیا گیا چین کا قرضہ اتارے گا۔ امریکی وزیرخارجہ نے بین الاقوامی مالیاتی ادارے کو یہ مشورہ ایسے نازک وقت پردیا کہ پاکستان شدید مالی مشکلات میں گھرا ہوا تھا۔

خیال رہے کہ اگست2018 میں 12 امریکی سینٹرز نے امریکی وزیرخزانہ کو الگ الگ خطوط ارسال کئے تھے جس میں باقاعدہ طور پر چین کے تعاون سے کام کرنے والے ممالک کو کسی قسم کی کوئی رعایت نہ دینے کا مطالبہ کیاگیا تھا جس میں پاکستان سرفہرست تھا۔

امریکی وزیرخارجہ نے آئی ایم ایف کو خبردار کرتے کہا تھا کہ جب تک پاکستان کو چین کی جانب سے دئیے گئے قرضوں کی تفصیلات کا پتہ نہ چلے تب تک پاکستان کو 12 ارب ڈالر قرضے کی منظوری دینے سے گریزکیاجائے۔

آئی ایم ایف سے پاکستانی حکام کے مذاکرات کامیاب ہونے کے بعد بھی امریکی مداخلتوں میں کوئی کمی نہیں آئی 25 مئی کو امریکی وزیرخارجہ نے ایک بار پھربیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ ہم پاکستان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ شدت پسندی کی حمایت کرنا ترک کرے اور جب تک پاکستان مذکورہ شرایط پر عمل پیرا نہیں ہوتا اسلام آباد کوکسی قسم کا کوئی قرضہ نہیں ملے گا۔

آئی ایم ایف پر امریکی اثر رسوخ

اہم ترین سوال یہ ہے کہ کسی بھی ملک کے آئی ایم ایف سے مذاکرات کے کامیابی میں امریکی کردار اتنا اہم کیوں ہے؟ آئی ایم ایف پر امریکی اثر رسوخ کے کیا وجوہات ہیں؟

امریکا کا آئی ایم ایف پر اتنا اثر و رسوخ ہے کہ وہ کسی بھی ملک کے لیے قرضہ رکوا سکتا ہے، جس کی اصل وجہ آئی ایم ایف میں برابری کی بنیاد پر ہر ملک کو ایک ووٹ حاصل نہیں ہونا ہے۔

 آئی ایم ایف میں ووٹ تین چیزوں کی بنا پر مقرر ہوتے ہیں یعنی کسی ملک کی خام پیداوار (جی ڈی پی) کتنی ہے، بیرونی ذرائع مبادلہ کے ذخائر کتنے ہیں اور برآمدات و درامدات کی مقدار کیا ہے۔ اس طریقہ کی وجہ سے غریب ملکوں کے ووٹوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ صرف امریکا کے ووٹ، تمام ممالک کے کل ووٹوں کا تقریباً 18 فی صد بنتے ہیں۔ اگر ہم پانچ بڑے ممالک امریکا، برطانیہ، فرانس، جاپان اور چین کے ووٹ جمع کریں تو وہ ووٹوں کی کل تعداد کے 40 فی صد کے قریب بنتے ہیں۔ سب سے بڑے تقریباً 20 صنعتی ممالک بشمول پہلے بتائے گئے پانچ ممالک کے پاس کل ووٹوں کی کل تعداد کا 70 فی صد کے قریب ہے یعنی ایک طرح سے وہ جو چاہے کر سکتے ہیں۔ امریکا کے ووٹوں کی تعداد 16٫97 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا آسانی کے ساتھ ویٹو کرسکتا ہے۔

پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کے معیار پر پورا اترنا ہوگا

پاکستان میں معیشت کا بحران اس بات کا باعث بنا ہے کہ یہ ملک آئی ایم ایف کے سخت ترین شرایط کو بھی قبول کرنے کے لئے مکمل طور پر تیار دکھائی دیتا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف دونوں مل کر پاکستان پر دباؤ ڈال رہے ہیں کیونکہ ان دونوں اداروں پر امریکی اجارہ داری قائم ہے۔

ایف اے ٹی ایف کیا ہے؟

فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF) ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس کا قیام 1989میں عمل میں لایا گیا اور اسکا بنیادی مقصد رشوت خوری اور پیسے کی غیر قانونی ترسیل پر نظر رکھنا اوراسے روکنے کے عالمی قوانین بنانا ہے۔

 (اس طرح اسکے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد دہشت گردی کا سد باب کرنا ہے؛ کیونکہ دہشت گردوں کو اپنی تخریب کارانہ کارروائیوں کو جاری رکھنے کے لیے سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ سرمایہ ان کو غیر قانونی ذرائع سے ہی ترسیل کیا جاتا ہے۔)

 

 اس وقت اس تنظیم کے 37ارکان ہیں جن میں 35 ممالک اور 2علاقائی تنظیمیں ہیں۔ اسرائیل اور سعودی عرب اس تنظیم سے بطور ’’ مبصر‘‘ منسلک ہیں۔ پاکستان اس تنظیم کا رکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذیلی تنظیم ’’ ایشیا پیسیفک گروپ‘‘ (APG) کے ذریعے سے اس تنظیم سے وابستہ ہے۔ تنظیم کا طریقہ کار یہ ہے کہ ممبر ممالک کسی بھی ملک یا تنظیم کا نام جاری کیے جانے والی فہرستوں میں ڈالنے کی قرارداد پیش کرتے ہیں۔ اگر رکن ممالک میں سے کم از کم تین ممالک اس قرارداد کی مخالفت کریں تو یہ قرار داد مسترد ہو جاتی ہے۔

یہ تنظیم دنیا کے ممالک اور مالیاتی اداروں کی چار اقسام میں درجہ بندی کرتی ہے:

  • بلیک لسٹ
  • گرے لسٹ
  • واچ لسٹ

بلیک لسٹ میں وہ ممالک ہوتے ہیں جو اس تنظیم کے خیال میں مناسب قانون سازی کے لیے دنیا اور عالمی اداروں سے تعاون نہیں کر رہے ہوں۔ یعنی جان بوجھ کر پیسوں کی سمگلنگ اور رشوت ستانی میں ملوث ہوتے ہیں؛

گرے لسٹ میں ان مالک کے نام شامل ہوتے ہیں جوتعاون تو کر رہے ہوتے ہیں؛ لیکن انہوں نے اس سلسلے میں ناکافی قانون سازی کی ہوتی ہے اور ان پر نظر رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے؛

 واچ لسٹ میں وہ ممالک ہوتے ہیں جن کے بارے میں ابھی مکمل طور پر کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا ہو اور امکان ہوتا ہے کہ ان ممالک کے بارے میں حتمی فیصلہ اس تنظیم کے آنے والے اجلاس میں کیا جائے گا۔

ایف اے ٹی ایف کے ساتھ پاکستان کا تعاون

پاکستان نے 1997 میں ایف اے ٹی ایف کے ساتھ تعاون کرنے کا اعلان کیا اور سنہ 2000 میں اے پی جی نامی تنظیم کا رکن بنا۔

پاکستان کے حوالے سے اپنے اعلامیے میں ایف اے ٹی ایف نے 10 ایسے نکات کی نشاندہی کی جس پر پاکستان کومندرجہ ذیل 10نکات پر کام کرنے کا کہا گیاہے:

  • پاکستان یہ ظاہر کرے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کی جانب سے لاحق ممکنہ خطرات کا مناسب فہم رکھتا ہے اور پھر ان خطرات کے پیش نظر اس قسم کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

 

  • ملک میں اینٹی منی لانڈرنگ/ ٹیرر فناسنگ کے ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف تدارکی اقدامات کیے جاتے ہیں اور ان پر پابندیاں نافذ کی جاتی ہیں، اور یہ بھی کہ مالیاتی ادارے اینٹی منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ کی روک تھام سے متعلق معاملات میں ان اقدامات کی تعمیل کرتے ہیں۔
  • بااختیار ادارے پیسوں کی غیر قانونی منتقلی یا ویلیو ٹرانسفر سروسز کی نشاندہی کرنے میں تعاون کر رہے ہیں اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی میں مصروف ہیں۔
  • پاکستان یہ ظاہر کرے کہ اس کے ادارے کیش کوریئرز پر نگرانی رکھے ہوئے ہیں اور نقد کی غیر قانونی نقل و حرکت کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
  • ممکنہ دہشت گردی کی فنانسنگ سے نمٹنے کے لیے صوبائی اور وفاقی اداروں سمیت تمام اداروں کے باہمی تعاون کو بہتر بنایا جائے۔
  • پاکستان یہ ظاہر کرے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے بڑے پیمانے پر دہشت گردی کی فنانسنگ سے متعلق سرگرمیوں پر تحقیقات کر رہے ہیں اور تحقیقات اور قانونی چارہ جوئی نامزد لوگوں، اداروں یا پھر ان کے نمائندے کے طور پر کام کرنے والے لوگوں یا اداروں کے خلاف ہورہی ہے۔
  • دہشت گردی کی فنانسنگ سے متعلق سرگرمی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کے نتیجے میں مؤثر، مناسب اور مزاحم پابندیاں عائد کی جاتی ہیں اور پاکستان وکیل استغاثہ اور عدلیہ کی صلاحیت کو بڑھا رہا ہے۔
  • پاکستان یہ ظاہر کرے کہ نامزد دہشگردوں اور ان کے سہولت کاروں پر (جامع قانونی اصولوں کے ذریعے) اہدافی مالی پابندیوں پر مؤثر انداز میں عمل درآمد ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ انہیں چندہ اکھٹا کرنے اور ان کی منتقلی کی روک تھام کی جا رہی ہے، ان کے اثاثوں کی نشاندہی اور انہیں منجمد کیا جا رہا ہے اور انہیں مالی امداد اور مالی سروسز تک رسائی سے باز رکھا جا رہا ہے۔
  • پاکستان یہ ظاہر کرے کہ دہشت گردی کی فنانسنگ سے متعلق پابندیوں کی خلاف ورزی کے معاملات کو انتظامی اور ضابطہ فوجداری کے تحت قانون کے مطابق نمٹایا جا رہا ہے اور قانون کے اس نفاذ میں صوبائی اور وفاقی ادارے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔

· پاکستان یہ ظاہر کرے کہ نامزد افراد اور ان کے سہولت کار جن سہولیات اور سروسز کے مالک ہیں یا پھر کنٹرول کرتے ہیں ان کے وسائل ضبط کرلیے گئے ہیں اور وسائل کا استعمال ناممکن بنا دیا گیا ہے۔

پاکستان (فروری 2020) تک 'گرے لسٹ' میں ہی رہے گا

اے ایف ٹی ایف سے بلامشروط تعاون کے باجود پیرس میں ایف اے ٹی ایف کے اجلاس کے اختتام پر ٹاسک فورس کے صدر شیانگ من لو نے کہا کہ پاکستان کو مزید 4 ماہ کے لیے اسی فہرست میں رکھا جائے گا۔

بھارت اور امریکا کا کردار

سیاسی ماہرین کا کہناہے کہ پاکستان کو گرے لسٹ میں باقی رکھنے میں بھارت اور امریکا کا ہاتھ ہے۔ بھارت کی جانب سے پاکستان کو ایف اے ٹی ایف کی 'بلیک لسٹ' میں شامل کرانے کی کوششیں کی گئی تھیں اور الزام لگایا گیا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کی معاونت کررہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد کو ایک بار پھر ہدایت کی گئی وہ منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کے مکمل خاتمے کے لیے مزید اقدامات کرے۔

پیرس میں ہونے والے ایف اے ٹی ایف کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پاکستان کے اقدامات پر فروری 2020 میں دوبارہ جائزہ لیا جائے گا۔

ٹاسک فورس کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ 'ایف اے ٹی ایف پاکستان پر زور دیتا ہے کہ وہ فروری 2020 تک اپنے مکمل ایکشن پلان کو تیزی سے پورا کرے۔

آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف امریکی آلہ کار

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکا بین الاقوامی اداروں کو اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا ہو بلکہ اکثر امریکی حکام عالمی اداروں کو اپنے مقاصد کے حصول کے لئے استعمال کرتے رہے ہیں؛ لہذا آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے شرائط پر بغیرچون وچرا عمل پیرا ہونا پاکستان کےلئے فائدہ پہنچانے کے بجائے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتے ہیں۔

آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی شرایط پاکستان کومزید مشکلات سے دوچار کرسکتی ہیں اور پاکستان اقتصادی حوالے سے پہلے سے زیادہ کمزور ہوسکتا ہے۔