امریکی دعووں کی قلعی کھل چکی !


امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غرب ایشیائی ممالک کے لئے ایک ایسا ناپا ک منصوبہ تشکیل دیا کہ جس کا ہدف ایک طرف مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ یعنی فلسطین کا مسئلہ ختم کرنا تھا

نائن الیون کے بعد امریکہ نے پوری دنیا کو سبق یاد کروایا تھا کہ امریکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کر رہا ہے اور اس جنگ میں نہ جانے امریکہ نے کئی ایک ممالک میں دسیوں ہزار بے گناہوں کو بھی بھینٹ چڑھانے میں کسی قسم کی عار محسوس نہ کی ۔ ان مما لک میں سر فہرست افغانستان، عراق، لیبیا، پاکستان میں ڈرون حملوں سے شہید ہونے والے افراد اور اسی طرح دیگر ممالک میں امریکی افواج کے ہاتھوں قتل ہونے والے ہیں ۔
بعد ازاں ان تمام ممالک میں امریکی افواج کو شکست اور امریکہ کی سیاست اور منصوبوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ۔ اگرچہ امریکہ پہلے ہی غرب ایشیائی ممالک میں ماضی میں یعنی سنہ2000ء تک بد ترین شکست کھا چکا تھا لیکن نائن الیون کے بعد امریکی منصوبوں کو ایک مرتبہ پھر دھچکا لگا اور بات یہاں تک آن پہنچی کہ امریکہ نے اسرائیل کے ساتھ مل کر غرب ایشیائی ممالک کے لئے ایک ایسا ناپا ک منصوبہ تشکیل دیا کہ جس کا ہدف ایک طرف مسلمانوں کا سب سے اہم مسئلہ یعنی فلسطین کا مسئلہ ختم کرنا تھا اور ساتھ ساتھ صہیونیوں کی غاصب اور جعلی ریاست اسرائیل کا تحفظ کرتے ہوئے گریٹر اسرائیل اور نیو مڈل ایسٹ کے فارمولہ کو عملی جامہ پہنانا تھا ۔

امریکہ سنہ 2001سے 2006ء تک عراق، افغانستان اور خاص طور سے لبنان میں اسرائیل اور حزب اللہ کے مابین ہونے والی33روزہ جنگ اور اسی طرغ غزہ میں سنہ2008ء میں اسرائیل اور حماس کے مابین ہونے والی بائیس روزہ جنگ میں شکست کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا تھا کہ خطے میں دہشت گرد گروہوں کی مدد سے خطے کی تمام ریاستوں کو کمزور کیا جائے اور پھر ان ممالک کو کئی ایک چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا جائے تاکہ اسرائیل جو کہ گریٹر اسرائیل کے لئے مذکورہ بالا جنگوں میں شکست کے بعد ناکام ہو چکا ہے تو بالواسطہ طور پر ٹوٹنے والی ریاستوں کے مختلف ٹکڑوں پر صہیونیوں کی حکمرانی قائم کر کے خطے میں راج کیا جائے ۔ اس عنوان سے امریکہ نے باضابطہ داعش نامی دہشت گرد تنظیم کو وجود بخشا جس کا آغاز شام سے کیا گیا او ر پھر دیکھتے ہی دیکھتے اعلی ترین اور جدید ترین اسلحوں اور امریکی فضائیہ کی کھلم کھلا مدد کے بعد شام سے نکل کر داعش عراق میں بھی جا پہنچی ۔

امریکہ کی جانب سے داعش کے لئے بنائے گئے منصوبوں میں شام اور عراق کے بعد ایران کو غیر مستحکم کرنا اور اسی طرح داعش کو افغانستان میں لا کر پھر پاکستان کے خلاف سرگرم کرنا بھی شامل تھا ۔ گذشتہ برس افواج پاکستان کے اعلیٰ عہدیداروں نے میڈیا کو بتایا تھا کہ داعش کے وجود کے نشانات شمالی وزیرستان اور افغانستان وپاکستان سرحد پر پائے گئے ہیں ۔ من جملہ یہ کہ امریکہ نے اپنی حاکمیت کو قائم کرنے کے لئے داعش کا استعمال کرتے ہوئے نہ صرف غرب ایشیائی ممالک کو نشانہ بنایا بلکہ ساتھ ساتھ جنوبی ایشیا ئی ممالک میں داخل ہو کر ایک طرف جہاں چین کی ترقی کو روکنا تھا وہاں ساتھ ساتھ خطے میں امریکی و اسرائیلی پولیس مین ہندوستان کو بھی مزید شہہ دینا تھی تاکہ خطے میں امریکہ کی مکمل بالا دستی ہو ۔ اب اس کام کے لئے امریکہ کے ساتھ جہاں کئی ایک یورپی ممالک اپنے اقتصادی مفادات کی خاطر ساتھ ہو لئے تھے وہاں ساتھ ساتھ اپنی بادشاہتوں کو بچانے کے لئے عرب دنیا کے کئی ایک خلیجی ممالک بھی اس شیطانی منصوبہ بن چکے تھے ۔

حالیہ دنوں بغداد میں عراقی اور ایرانی فورسز کے کمانڈروں بالترین ابو مہدی مہند س اور قاسم سلیمانی کی امریکی افواج کے دہشت گردانہ حملوں میں شہادت کے بعد عرب دنیا اور بالخصوص مغربی ذراءع ابلاغ میں کئی ایک ایسی خبریں اور تجزیات شاءع ہو چکے ہیں کہ جن میں باقاعدہ طور پر اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ قاسم سلیمانی صرف ایران کے ایک جنرل نہیں تھے بلکہ ایک ایسی عالمگیر مزاحمتی شخصیت تھے کہ جنہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے ان تمام منصوبوں کو خاک میں ملایا ہے کہ جس کے نتیجہ میں امریکہ اور اسرائیل غرب ایشیائی ممالک اور جنوبی ایشیائی ممالک کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اپنا براہ راست یا بالواسطہ راج قائم کرنے کے خواہشمند تھے ۔ ایسی چند تحریریں نظروں سے گزری ہیں کہ جس میں فلسطین میں بھی اس مجاہد اسلام قاسم سلیمانی کے چرچے ہیں کہ کس طرح انہوں نے امریکہ اور اسرائیل کے منصوبوں کو فلسطینیوں کے خلاف کامیاب نہیں ہونے دیا اور اپنی خدمات انجام دیں ۔ اسی طرح لبنان کے عوام بھی اعتراف کر رہے ہیں کہ لبنان کی آزادی اور لبنان سے امریکی افواج کا انخلاء کا معاملہ ہو یا پھر صہیونی افواج کے انخلاء کا معاملہ ہو، شہید قاسم سلیمانی کی شخصیت کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ وہ لبنان کےلئے نجات دہندہ رہے ۔ شام کی بات کر لیں تو یہاں ایسے افراد کے تجزیات سامنے آئے ہیں کہ جنہوں نے لکھا ہے کہ نہ صرف شام کے مسلمان بلکہ مسیحی بھی قاسم سلیمانی کو شام کے لئے ایک مسیحامانتے ہیں کہ جنہوں نے شام کا دفاع کرنے میں فرنٹ لائن پر رہ کر مسلمانوں اور مسیحیوں کی ناموس و عزت کی حفاظت کی اور امریکی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیم داعش کے ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملایا ۔ ایسا ہی رحجان عرا ق کے اخبارات میں بھی موجو دہے کہ قاسم سلیمانی اور ابو مہدی عرا ق میں اسلامی مزاحمت کے دو ایسے درخشاں کردار ہیں کہ جن کی بدولت آج عراق کے شہروں اور دیہاتوں میں داعش جیسی خبیث اور دہشت گرد تنظیم کا وجود ختم ہو اہے اور عرا ق میں بلا تفریق مسلمان ، مسیحی اور دیگر مسالک و مذاہب کے لوگوں کی ناموس اگر محفوظ رہی ہے تو ا س کا سہرا قاسم سلیمانی اور ابو مہدی جیسے عظیم فرزندان اسلام کو جاتا ہے ۔

امریکی اخباروں اور تجزیہ نگاروں کی اگر بات کی جائے تو یہاں بھی قاسم سلیمانی کے لئے ایسے ہی جذبات اور احساسات موجود ہیں اور کہا جا رہاہے کہ امریکہ صدر ٹرمپ نے قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کو قتل کرنے کے احکامات صادر کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ نہ تو پہلے کبھی دہشت گردوں کے خلاف تھا اور نہ آج کسی قسم کی دہشت گردی کے خلاف ہے ۔ بلکہ یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ امریکہ نے داعش جیسی خطر ناک تنظم کو خود بنایا، مالی و مسلح معاونت کے ساتھ ساتھ عسکر ی تربیت فراہم کی اور پھر اس دہشت گرد گروہ کے مقابلہ میں لڑنے والے فوجی کمانڈروں کو بغداد میں ایک بزدلانہ اور دہشت گردانہ کاروائی میں قتل کر دیا ہے ۔ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکہ کے تمام تر دعوے جھوٹے اور فریب پر مبنی ہے کہ جس میں امریکہ دنیا کے ممالک کو کہتا ہے کہ امریکہ دہشت گردی کےخلاف جنگ چاہتا ہے بلکہ بغداد میں امریکی افواج کی دہشت گردانہ کاروائی نے امریکی دعووں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور دنیا کا بچہ بچہ اس بات کو جان چکا ہے کہ دنیا بھر میں تمام تر بدی کا محور امریکی نظام اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل ہے ۔

 

تحریر: صابر ابو مریم
سیکرٹری جنرل فلسطین فاءونڈیشن پاکستان
پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر، شعبہ سیاسیات ، جامعہ کراچی