امریکا، اسرائیل، داعش اور چند ناعاقبت اندیش


امریکا اور اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں اور دوسرے ممالک پر جنگوں کے مسلط کرنے کی ایک سو سالہ طویل تاریخ میں انسانیت نے اس قدر بدترین اور ہیبت ناک مظالم کا سامنا کیا ہے جس کی مثال اس سے قبل انسانی معاشروں میں نہیں ملتی۔

امریکا کی تاریخ کی بات کریں تو ایک تفصیلی تحقیق اس نتیجہ پر پہنچتی ہے کہ امریکا  کی ایک سو سال سے زیادہ کی تاریخ میں صرف اور صرف دوسری اقوام کی تذلیل اورعوام کو محکوم بنانے سمیت دنیا کے مختلف ممالک بشمول ایشیائی و افریقائی ممالک میں قدرتی وسائل پر قبضہ اور انسانی وسائل کو اپنے ناپاک عزائم کے لئے استعمال کرنا شامل رہا ہے۔

خاص طور پر دوسری جنگ عظیم کو شروع کرنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ دنیا کے تمام وسائل سے مالا مال علاقوں پر امریکی سامراج کا تسلط ہو اور پھر امریکی سامراج جب چاہے اور جیسا چاہے انجام دیتا ہجری مگر اس کو روکنے والا کوئی نہ ہو۔ یعنی ایک بد مست ہاتھی۔ بہر حال امریکی جرائم اور امریکی افواج کے ہاتھوں انسانیت کے قتل عام کی تاریخ ایک سو سال سے بھی زیادہ پر محیط ہے جس کے بارے میں بندہ حقیر پہلے کئی سیریل کالم لکھ چکا ہے تا کہ پاکستان کے نوجوانوں کے لئے حقائق آشکار ہوں اور دوست و دشمن کی پہچان ہو سکے۔

امریکا  کے بعد دنیا میں دوسری ظالمانہ تاریخ غاصب صہیونیوں کی جعلی ریاست اسرائیل ہے۔ یعنی صہیونی ہیں۔ صہیونیوں کے بارے میں حقائق موجود ہیں کہ پہلی اور دوسری جنگ عظیم کو شروع کروانے میں پس پردہ رہتے ہوئے دنیا کو تہہ و بالا ہوتے دیکھنے میں کلیدی کردار رہا ہے ۔ اس کا بنیادی ہدف ان کے نزدیک یہی تھا کہ وہ ان جنگوں کے نتیجہ میں جلد از جلد صہیونیوں کی ایک ریاست بنام اسرائیل قائم کریں اور پھر صہیونیوں نے یہ جعلی اور غاصب ریاست فلسطین کی سرزمین یعنی عالم اسلام کے قلب پر قائم کر دی۔ سنہ 48 میں کرہ ارض اور خاص طور پرعالم اسلام کے قلب میں قائم کی جانے والی صہیونیوں کی جعلی ریاست نے جو ظلم و ستم فلسطین پر قبضہ کرنے سے قبل روا رکھے تھے وہ بھی ناقابل بیان ہیں جبکہ اس کے بعد نہ صرف فلسطین بلکہ خطہ کی دیگر ریاستوں میں بھی جنگی دخل اندازی سمیت موساد کی دہشتگردی کی ایک طویل تاریخ موجود ہے۔

اگر صہیونیوں کے جرائم کی تفصیل بیان ہوں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ صہیونیوں کے ظلم و جبر اور استبداد کی تاریخ بھی ایک سو سالہ ہے جس کے نتیجہ میں آج تک مظلوم ملت فلسطین اور خطہ کی دیگر ملتیں ان جرائم کا شکار ہیں۔

امریکا اور اسرائیل کی غاصبانہ پالیسیوں اور دوسرے ممالک پر جنگوں کے مسلط کرنے کی ایک سو سالہ طویل تاریخ میں انسانیت نے اس قدر بدترین اور ہیبت ناک مظالم کا سامنا کیا ہے جس کی مثال اس سے قبل انسانی معاشروں میں نہیں ملتی؛ یہی وجہ ہے کہ آج لاطینی امریکا کی ریاستیں امریکی جبر و استبداد کے خلاف سراپا جہاد ہیں۔ اسی طرح مسلمان ممالک میں بھی امریکی سامراج سے نفرت کی سب سے بڑی وجہ ان ممالک میں امریکی غنڈہ گردی ہے جس کا خمیازہ قوموں اور حکمرانوں کی غلامی کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔

اسی طرح اسرائیل کے گریٹر اسرائیل نامی ناپاک منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے خطے میں نا امنی اور جنگ و جدال میں ہزاروں نے گناہوں کا قتل اسرائیل کے مکروہ چہرے پر دھبہ کی مانند عیاں ہیں۔

داعش کا نام سنہ 2011 میں پہلی بار سنا گیا جب شام میں اس تنظیم نے شامی حکومت کو گرانے کا اعلان کیا اور مسلح دہشت گردی شروع کر کے شام کے مختلف علاقوں اور قصبوں میں بے گناہ اور نہتے انسانوں کو بد ترین سفاکیت کے ساتھ قتل کرنا شروع کیا۔ یہ سلسلہ شام تک نہ رکا بلکہ سنہ 2014 میں داعش عراق میں بھی پہنچ گئی۔ ان سفاک قاتلوں کا کام لوگوں کا سفاکیت سے قتل کرنا تھا اور پھر ان مناظر کو سوشل میڈیا کے ذریعہ پوری دنیا کو دکھانا تھا۔

ان تمام سفاکانہ کاروائیوں میں امریکا  اور اسرائیل کے ایک سو سالہ مظالم کی طویل داستان کا خلاصہ موجود تھا۔ تحقیق کے مطابق ماضی میں جس طرح کے ظلم و ستم امریکی سامراج  اور صہیونیوں کی  جانب سے روا رکھے گئے تھے داعش نے اس سے کئی گنا بڑھ کر انجام دیئے۔

ایسے مناظر رپورٹ ہوئے ہیں کہ ماؤں کی کوکھ سے بچوں کو نکال نکال کر سر قلم کر دیا گیا پھر ان معصوم جسموں کو فٹبال بنا دیا گیا۔خواتین کی عصمت دری کو حلال قرار دیا گیا۔ لوگوں کا قتل کر کے انجوائے منٹ کا تاثر پیدا کیا گیا۔ یہ سب اور اس سے بڑھ کر ظلم داعش نے انجام دیئے۔

اگر مشاہدہ کیا جائے تو واضح طور پر امریکی و صہیونی اور داعشی سفاکیت میں مماثلت پائی جاتی ہے۔ جو کام ایک سو سالہ تاریخ میں امریکی افواج مختلف ممالک میں فوجی چڑھائی کر کے انجام دیتی رہی ہیں وہی کام صہیونیوں کی گذشتہ ایک سو سالہ تاریخ میں بھی ملتا ہے اور اسی طرح یہی سفاکیت داعش کی سات سے آٹھ سالہ تاریخ میں ہمیں نظر آتا ہے۔

امریکا  کا زعم تھا کہ دنیا کی تمام ریاستیں اس کی غلام رہیں لیکن یہ زعم سنہ 1979 میں ایران کی سرزمین پر آیت اللہ امام خمینی نے توڑ کر رکھ دیا اور امریکا  کے غرور اور تکبر کو خاک میں ملا دیا۔ اسی طرح اسرائیل کا گریٹر اسرائیل کا منصوبہ جسے اسرائیل چاہتا تھا کہ عملی جامہ پہنائے اس منصوبہ کو روکنے میں حزب اللہ لبنان اور شام کی حکومت سمیت فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں حماس اور جہاد اسلامی کا کردار انتہائ اہم رہا ہے۔ البتہ اسرائیل کی طاقت کا نشہ یہ تھا کہ سنہ 1967 میں چند دنوں میں کئی عرب ممالک کو شکست دے کر ان کی زمینوں پر بھی قابض ہو چکا تھا لیکن اس غرور اور جعلی برتری کو بھی لبنان میں حزب اللہ نے سنہ 2000 اور پھر سنہ 2006 کی جنگ میں توڑ ڈالا۔

اسرائیل اور امریکا  نے اس طرح کی پے در پے شکست کے بعد داعش کا فارمولہ بنا کر شام میں اتار دیا تا کہ گریٹر اسرائیل کا منصوبہ داعش کے ہاتھوں انجام پا جائے۔

البتہ یہاں اس بات کا ذکر کرنا بھی بہت ضروری ہے کہ سنہ 1979 کے بعد فلسطین ، لبنان اور شام میں امریکا  و اسرائیل کے منصوبوں کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب امام خمینی کا ایران میں اسلامی انقلاب کا وجود اور اس انقلاب سے فلسطین اور دیگر اقوام کی وابستگی اہم ترین عنصر تھا۔

امریکا  اور اسرائیل کے منصوبوں کی ناکامی کے بعد داعش کو بھی اسی اسلامی مزاحمت کے بلاک کہ جس نے ماضی میں امریکا  و اسرائیل کے ناپاک عزائم کو خاک کر دیا تھا، نے نہ صرف شام اور عراق میں شکست سے دو چار کیا بلکہ داعش کے وجود کو ہی نابود کر دیا ہے جس کے بعد ایک مرتبہ پھر امریکا  اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ گریٹر اسرائیل یا نیا مشرق وسطی دم توڑتا نظر آ رہا ہے۔

اس بحث میں یہ بات ذکر ہونا بھی ضروری ہے کہ امریکا  اور اسرائیل کے اتحادیوں میں جہاں یورپی ممالک شامل تھے وہاں خطے کی چند عرب ریاستیں بھی اپنی بادشاہتوں کی امریکی ضمانت حاصل کرنے کے لئے داعش کی بھرپور مدد میں شامل رہی ہیں۔

اسی طرح امریکا  اور اسرائیل کے فلسطین سے شام اور عراق سمیت افغانستان تک منصوبوں کو ناکام بنانے والوں کا ذکر جب آئے گا تو خود فلسطینیوں کی زبان میں بیان کیا جاتا ہے کہ جیسا ابھی حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے اور پھر ایک اور رہنما عبدو ہادی نے اعتراف کیا ہے کہ جنرل قاسم سلیمانی اور لبنان کی حزب اللہ کے عماد مغنیہ ایسی شخصیات ہیں کہ جنہوں نے فلسطین میں فلسطینیوں کے شانہ بہ شانہ رہ کر اسرائیل کے خلاف جدوجہد کی ہے اور فلسطینیوں کو بھرپور مدد اور تعاون دیا ہے۔ جس کے باعث آج فلسطین کی مزاحمت پتھر سے بڑھ کر میزائل اور ڈرون ٹیکنالوجی تک پہنچ چکی ہے اور سب کچھ قاسم سلیمانی کا مرہون منت ہے۔

اب کالم کے عنوان میں ذکر چند ناعاقبت اندیشوں کی بات کرتے ہیں جو پاکستان میں تعصب کی عینک لگائے بیٹھے ہیں یا پھر یوں کہہ لیجئے کہ ان کے مفادات میں امریکا ، اسرائیل اور داعش کے مفادات کے ساتھ مشترکہ ہیں؛ کیونکہ یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ قاسم سلیمانی پر امریکی بزدلانہ حملہ کے بعد جہاں دنیا بھر میں قاسم سلیمانی اور ابو مہدی مہندس کی شہادت پر لوگوں نے امریکی دہشت گردی کے خلاف رد عمل دیا ہے وہاں یہی چند ناعاقبت اندیش افراد بظاہر اسلامی لبادہ اوڑھ کر امریکی مفادات کے تحفظ کے لئے سرگرم ہو گئے ہیں اور انتہائ کمزور ترین من گھڑت باتوں سے چاہتے ہیں کہ عالم اسلام کے اتحاد کو پارہ پارہ کر دیں۔ ایسے افراد آپ کو سوشل میڈیا پر پاکستان کے سب سے بڑے خیر خواہ بن کر خود کو پیش کرتے نظر آئیں گے لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کے اصل دشمن ہیں جن کی جڑیں امریکی و صہیونی مفادات کے ساتھ ساتھ اسلام کو بدنام کرنے اور ہزاروں انسانوں کا قتل کرنے والے سفاک داعشی دہشت گردوں کے ساتھ ہے۔

 حقیقت میں یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ماضی میں افواج پاکستان کے نوجوانوں کو بھی داعشی انداز میں قتل کیا ہے اور ان کے مقدس سروں سے فٹبال کھیلتے رہے ہیں اور اب صحافتی و دیگر اسلامی لبادوں میں چھپ کر عالم اسلام کے قلب فلسطین کے مسئلہ کو بھی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں اور فلسطین و القدس کے شہیدوں کے خون کو فراموش کرنے کے لئے داعشی فکر کو پروان چڑھا کر پاکستان کی جڑوں کو بھی کھوکھلا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔

خلاصہ یہ ہے اس دور میں نوجوان نسل کو ہوشیار اور با خبر رہنے کی ضرورت ہے تا کہ حق کی پہچان ہو سکے۔ حق کی پہچان کا آسان طریقہ جو انبیائے کرام نے خدا کی طرف سے بیان کیا ہے وہ فقط سادہ سا ہے یعنی “ہر مظلوم کی حمایت اور ہر ظالم کی مخالفت اور ظالم کے خلاف جدوجہد، مظلوم چاہے کسی بھی مذہب و رنگ ونسل کا ہو مظلوم کی حمایت لازم ہے اور اسی طرح ظالم کسی بھی مذہب و رنگ و نسل و قبیلہ کا ہو اس کے خلاف جدوجہد لازم ہے”۔

 دنیا بخوبی جانتی ہے کہ فلسطینی مظلوم ہیں یا نہیں ؟ اور فلسطینیوں کے لئے جہاد میں مصروف رہنے والے شہدائے القدس قاسم سلیمانی و عماد مغنیہ و شیخ احمد یاسین، عبد العزیز رنتیسی، فتحی شقاقی و دیگر مظلوموں کے حامی ہیں جبکہ امریکا  و اسرائیل سمیت داعش کا دفاع کرنے والے یقیناً ظالموں میں شمار ہوتے ہیں۔

تحریر: صابر ابو مریم

سیکرٹری جنرل فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان

پی ایچ ڈی ریسرچ اسکالر ، شعبہ سیاسیات جامعہ کراچی