مولوی عبدالعزیز نے حکومتی مطالبات قبول کرنے سے انکار کردیا
لال مسجد؛ مولوی عبدالعزیز نے اپنے مطالبات کے حوالے سے حکومت کے بھجوائے گئے قانونی نکات قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، مقامی ذرائع کا کہنا ہے کہ مولوی عبدالعزیز نے تمام حکومتی مطالبات ماننے سے انکار کردیا ہے مسجد میں ان کے ساتھ مسلح افراد بھی موجود ہیں۔
پاکستان علما کونسل (پی یو سی) کے چیئرمین طاہر اشرفی نے بھی لال مسجد کا تنازع ختم کروانے کی کوشش کی جو بے ثمر رہی
وزیر داخلہ اعجاز احمد شاہ سے ملاقات کے بعد طاہر اشرفی جمعرات کی صبح لال مسجد پہنچے تھے۔
ملاقات کے بعد ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے امید ہے کہ 24 گھنٹوں کے دوران معاملات درست سمت گامزن ہوجائیں گے، سب سے اہم چیز اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ کسی بھی جانب سے کوئی گولی نہ چلے اور محاصرہ ختم کیا جائے تا کہ علاقہ مکینوں کی مشکلات دور ہوسکیں۔
طاہر اشرفی کا کہنا تھا کہ حکومت کا پیغام اور تحفظات مولانا عبدالعزیز تک پہنچادیے گئے ہیں۔
بعدازاں انہوں نے وزارت داخلہ کو بھی ایک رپورٹ ارسال کی جس میں کہا گیا تھا کہ مسجد میں صرف 4 مسلح مرد ہیں جو عبدالعزیز کے باڈی گارڈز ہیں۔
واضح رہے کہ حکومت میں کچھ حلقوں کی جانب سے رینجرز اور لال مسجد کے باہر موجود فرنٹیئر کانسٹیبلری (ایف سی) کو مسجد کے اندر سے کسی بھی جارحانہ عمل کو ناکام بنانے کی تجویز دی گئی ہے۔
خیال رہے کہ عبدالعزیز کے مطالبات میں سب سے اہم مطالبہ انہیں لال مسجد کا خطیب تسلیم کرنے کا ہے اور یہ کہ حکومت سیکٹر ایچ-11 میں تعمیر ہونے والے 30 لاکھ روپے کی ادائیگی اور اس پلاٹ کی منسوخی پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی حدود میں کوئی نیا پلاٹ دے۔
تاہم حکومت کا کہناہے کہ صرف ایک شخص کے لیے قانون کو تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔
حکومتی عہدیدار کا کہنا ہے کہ ’یہ بات واضح ہے کہ مولوی عبدالعزیز ریٹائرڈ ہوگئے ہیں اور سرکاری ملکیت کی لال مسجد میں نمازِ جمعہ کا خطبہ دینے کے مجاز نہیں، اسی طرح سپریم کورٹ کے احکامات پر اپریل 2019 میں ایچ-11 کا پلاٹ منسوخ کردیا گیا تھا۔
جس پر کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹوریٹ آف بلڈنگ کنٹرول نے ایچ-11 کے جامعہ حفصہ کو نوٹس جاری کیا تھا کہ اسے سیل کردیا جائے گا کیوں کہ اتھارٹی سے تصدیق نامہ عدم اعتراض (این او سی) لیے بغیر تعمیرات شروع کی گئیں۔
اس سلسلے میں علما کے ایک وفد نے وزیر داخلہ سے بھی ملاقات کی تھی لیکن تنازع ختم کرنے کے لیے دونوں فریقین کو قائل کرنے میں ناکام رہے۔
وزارت داخلہ کے حکام کا کہنا ہے کہ عبدالعزیز کو مسجد سے نکل جانا چاہیئے کیوں کہ یہ نجی ملکیت نہیں۔
یاد رہے کہ عبدالعزیز کچھ روز قبل پابندی کے باوجود لال مسجد میں طلبہ کے ساتھ آکر قابض ہوگئے تھے اورخطبہ بھی دیا تھا جس میں اشتعال انگیز باتیں کی گئی تھیں۔
تاہم حکام نے اسے نظر انداز کردیا تھا البتہ صورت حال اس وقت کشیدہ ہوگئی تھی جب سیکڑوں طالبات نے اسلام آباد کے سیکٹر ایچ 11 میں قائم جامعہ حفصہ میں داخل ہو کر اس کی سیل توڑ دی تھی۔
بعدازاں انتظامیہ نے عبدالعزیز کو لال مسجد خالی کرنے کا انتباہ دینے کے بعد مسجد کے باہر کے علاقے کا محاصرہ کرلیا تھا اور نماز جمعہ کے علاوہ کسی نماز کے لیے نمازیوں کو اندر جانے نہیں دیا گیا تھا۔
اس کے نتیجے میں دارالحکومت کی انتظامیہ کے افسران عبدالعزیز سے ملاقات کے لیے لال مسجد پہنچے لیکن مذاکرات اس لیے بے نتیجہ رہے کیونکہ عبدالعزیز کا اصرار تھا کہ وفاقی وزیر کے عہدے کی سطح کا کوئی عہدیدار ان سے بات چیت کرے۔