عالمی یوم خواتین ضروریات اور انحرافات
اللہ تعالی نے انسان کو خودمختار اور آزاد خلق کیا ہے جس پر کوئی جبر اور اکراہ نہیں ہے۔
تسنیم خبررساں ادارہ: اللہ تعالی نے انسان کو خودمختار اور آزاد خلق کیا ہے جس پر کوئی جبر اور اکراہ نہیں ہے۔ اس خودمختار انسان کو اللہ تعالی نے راستہ دکھایا ہے اور اس کے بعد اسے آزاد چھوڑا ہے جس کے بارے میں ارشاد ربانی ہوتا ہے:« انا ھدیناہ السبیل اما شاکرا و اما کفورا»۔ ہم نے انسان کو راستہ دکھایا ہے اب اس کی مرضی جس راستے پر جاتا ہے۔
اسلام نے بھی انسانی خودمختاری اور آزادی کو مان لیا ہے اور خواتین کے حقوق کے لئے آواز اٹھانے میں سب سے پہلا علمبردار ہے۔ اسی لئے جس معاشرے میں بیٹی کو زندہ درگور کیا جاتا تھا ایسے میں بیٹی کو مقام دیا اور اسے بنیادی حقوق دیے اور بہت اہم مقامات پر عورت کو مردوں کے ساتھ لا کھڑا کیا جیسے مباہلہ کے میدان میں رسول اکرم نے اپنی بیٹی حضرت فاطمہ زہرا کو اپنے ساتھ لے آئے۔ اسلام میں عورت کے لئے ارث، قصاص اور دیگر حقوق دیا لیکن آج اس دین مبین کو عورت کے حقوق کا مخالف ٹھہرایا جارہا ہے۔ دنیا والوں نے بھی معاشرے میں عورتوں کے حقوق کے دفاع کے لئے 1909 کے بعد سے 8 مارچ کو یوم خواتین کا نام دیا. اور 1975 میں اقوام متحدہ نے بھی اس دن کو عالمی یوم خواتین کےنام سے منانا شروع کیا۔ اس دن کا مقصد یہ تھا کہ معاشرے میں خواتین پر ہونے والے ظلم و ستم کو روکا جاسکے اور ان کو اپنے حقوق دئے جاسکیں۔ لہذا عالمی یوم خواتین ایک اچھے مقصد کے پیش نظر منایا جانے لگا۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ دن عورتوں کے حقوق کے بجائے سیاست کی نذر ہوگیا اور اسے مختلف معاشروں میں وہاں کے
اقدار کے خلاف ایک تحریک کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔
جبکہ انسان جس معاشرے میں رہتا ہے اس کے کچھ قوانین اور طور طریقے ہوتے ہیں، جس کا اتباع ہر ذی شعور انسان اپنے اوپر فرض سمجھتا ہے کیونکہ کسی معاشرے میں ہر انسان اپنی من مانی کرے اور اقدار اور معاشرے کے نانوشتہ قوانین کی مخالفت کرے تو معاشرہ اس کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے اور یہ بات فقط کسی دین اور شریعت کے ماننے والے کی نہیں بلکہ ہر ذی شعور انسان یہی کہتا ہے کہ ہر معاشرے میں رہنے کا حق اسی کو حاصل ہے جو معاشرے کے اقدار کی پاسداری کرے۔ جب اقدار کی پامالی شروع کرے گا تو سارا معاشرہ اس کے خلاف اٹھ کھڑا ہوگا اور اس انسان کے خلاف آواز اٹھے گی اور اسے معاشرے کے قوانین کی پاسداری پر مجبور کیا جائے گا۔ لیکن اس اجبار کو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ اس کی خودمختاری اور آزادی کے خلاف ہے بلکہ حق تو یہ ہے کہ وہ خودمختاری سے غلط فائدہ اٹھا رہا تھا اور خودمختاری کے نام پر حدیں پار کر رہا تھا دوسرے کے حقوق کی پامالی کر رہا تھا تو اسے اپنے راستے پر لایا گیا ہے اور یہ عین خودمختاری اور آزادی ہے۔
خواتین کے عالمی دن میں اب جو عورت مارچ کے نام سے ریلیاں نکلتی ہیں وہ ریلیاں اب خواتین کے حقوق کو چھوڑ کر ہوا و ہوس کا شکار ہوچکی ہیں، کچھ مغرض اور مفادپرست عناصر نے ان ریلیوں کی جہت اور ان کے قبلے کو حقوق کے مطالبے کے بجائے ہوس کے مطالبے کی طرف کردیا ہے جس کی وجہ سے اکثر جوان لڑکیاں «میرا جسم میری مرضی» والے پلےکارڈز ہاتھ میں لےکر نکلتی ہیں اور بعض دفعہ تو ایسی حرکتیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں جو شریعت اور انسانی اقدار تو درکنار حیوانات میں بھی نہیں پائی جاتی ہیں۔
الغرض عورت مارچ کرنے کو بھی ہم عورت کے حقوق کا حصہ سمجھتے ہیں لیکن اس وقت تک یہ مارچ انکا حق ہے جب تک ہمارے معاشرتی اقدار، ہمارے دینی اقدار کے منافی نہ ہو۔
ایک انسان خواہ مرد ہو یا عورت اسے معاشرے میں پوری پوری آزادی ہے لیکن اس حد تک آزادی ہے کہ اس کے افعال دوسرے انسانوں کے حقوق اور اقدار کی پامالی کا باعث نہ ہوں۔ جب دوسرے کے حقوق سے ٹکرائے تو یہ پھر خودمختاری نہیں بلکہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کا مترادف ہے۔
معاشرے کے جوان (لڑکے اور لڑکیوں کو اسلامی معاشرے میں اسلامی اقدار کی انجام دہی کے ساتھ جینے کا حق حاصل ہے جب اس کے اقدار کی پامالی ہوجائے، جب بےحیائی کی وجہ سے اسکا دین خطرے میں پڑے، اس کا ذہنی سکون برباد ہوجائے تو ایسے میں یہ بےحیائی اس لڑکی کی خودمختاری اور آزادی نہیں بلکہ دوسروں کی دل آزاری ہے دوسرے لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے یہ آزادی نہیں آوارگی ہے۔ اور کچھ شہوت پرست مرد اس عورت مارچ کی آڑ میں اپنی شہوت اور حیوانیت کو سیراب کر رہے ہیں اور یہی انسان جو عورت مارچ کا مدافع ہے جب اپنی بیٹی یا بیوی پر بات آئے گی تو آگ بگولہ ہوگا۔ (البتہ اگر ذرہ برابر دین اس میں ہو تو)
جس طرح ہاسٹل کے جس کمرے میں دوچار جوان ایک ساتھ رہتے ہیں، وہاں رات گئے تک ان میں سے کسی ایک کو حق حاصل نہیں کہ لائٹ آن کر کے مطالعہ کرے اور دوسروں کی نیند کے لئے مزاحم بنے اور منع کرنے پر یہ کہے کہ مجھے مطالعہ کرنا ہے اور آپ سوجائیں، اسی طرح سے معاشرے کے جوان، فیملیز اور پاکدامن خواتین و حضرات کے لئے بھی عورت مارچ جو اپنی اصلی شناخت کھوچکی ہے ڈسٹرب ہے اور ان کے اقدار، دین اور شریعت نیز معاشرے کے راہ و رسم کے برخلاف ہے اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ میرا بدن میری مرضی۔
اسلام میں جہاں انسان اپنے بدن پر صاحب اختیار نہیں، کسی کو یہ حق نہیں کہ وہ اپنا ہاتھ کاٹے، شریعت میں یہ حرام ہے اور اسلامی معاشرے میں ہمیں انہی تعلیمات کے مطابق زندگی بسر کرنا ہوگا۔ ہاں اگر اسلامی قوانین سے ماوراء کسی کام کرنے کا دل کررہا ہے تو وہ پھر اسلامی جمہوریہ کے اندر ممکن نہیں کیونکہ ایک اسلامی ملک میں ہر وہ کام جائز ہے اور ہر وہ کام انسان کرسکتا ہے جو اس آئین اور شریعت کے منافی نہ ہو۔ وگرنہ جس طرح سے صاحبان اقتدار کرپشن کر کے غریبوں کے مادی حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں اسی طرح سے عورت مارچ میں کچھ لوگ دیندار لوگوں کے دینی اور معنوی حقوق پر ڈاکہ ڈالتے ہیں۔ جس طرح سے کوئی شخص کرپشن کرنے میں آزاد نہیں جس طرح سے ملکی قوانین کی مخالفت کرنے کا کسی کو حق نہیں اسی طرح سے دینی اقدار اور شریعی قوانین کی مخالفت کرنا بھی کسی کا حق نہیں۔
پس خواتین کو ان کے ہر وہ حقوق ملنے چاہئے جو قرآن و سنت میں متعین ہوچکے ہیں اور قرآن وسنت اور اسلامی معاشرے کے مخالف کوئی بھی حق کا مطالبہ حقیقت میں عورت کا حق نہیں عورت کی آزادی نہیں بلکہ وہ شہوت اور خواہشات نفس کی اسیری کی دلیل ہے اور آوارگی ہے۔ ایسی آوراگی کو لگام دینا چاہئے اور حکومت کو چاہئے کہ عورت مارچ کے لئے قوانین وضع کرے اور ان کی خلاف ورزی پر قانونی چارہ جوئی کرے اور اگر قوانین کی پاسداری نہیں ہوتی ہے تو پھر عورت مارچ کو مکمل طور پر بند کیا جائے۔