کورونا وائرس ایک خوفناک حقیقت!


عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کو شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا کورونا نامی وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب دنیا کے اکثر ممالک تک پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے دو لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 9 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

تسنیم خبررساں ادارہ: اس وقت ایران اور پاکستان سمیت دنیا کے اکثر ممالک میں کورونا نامی شیطانی وبا کے چرچے ہیں اور ہرعام و خاص کا محور گفتگو کورونا ہی کورونا ہے، خاص کر سوشلستان میں ہرکوئی کورونا کے بارے میں اظہار خیال کرتا نظرآرہا ہے اگر کسی شخص کےپاس کہنے کو کچھ نہ ہوتو دوسروں کے مطالب شیئرکرکے اپنے وجود کا اظہار ضرور کرتا ہے! بلے وہ مطالب علمی لحاظ سے ناکارہ یا حتی نقصان دہ ہی کیوں نہ ہوں۔

گزشتہ ایک مہینے سے وادی سوشلستان میں جاری بحث و گفتگو اور مختلف ماہرین کے آرا سنے یا پڑھنے کے بعد احساس ہوا کہ اس بارے میں ہمیں بھی اظہار خیال کرنا چایئے۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

عالمی ادارہ صحت کے مطابق پھیپھڑوں کو شدید عارضے میں مبتلا کرنے والا کورونا نامی وائرس جو چین سے شروع ہوا تھا اب دنیا کے اکثر ممالک تک پھیل چکا ہے۔ دنیا میں اب تک کورونا وائرس سے دو لاکھ 20 ہزار سے زیادہ افراد متاثر ہو چکے ہیں جبکہ 9 ہزار سے زائد ہلاکتیں ہوئی ہیں۔

کورونا پاکستان بھی پہنچ چکا ہے۔ پاکستان میں تاحال اس کے 300 سے زائد مریضوں اور 2 افراد کے انتقال کی تصدیق ہوئی ہے۔ پاکستان کا ہمسایہ ملک یعنی اسلامی جمہوریہ ایران میں کورنا نہایت تیزی کے ساتھ پھیل رہا ہے اورایرانی وزارت صحت کے مطابق اس ملک کے مختلف شہروں میں کورونا وائرس میں مبتلا افراد کی تعداد 17 ہزار361 ہوگئی ہے اوراب تک اس مہلک وبا سے 1135 افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔

چین اور اٹلی کی بات کی جائے تو ان ممالک میں ہزاروں افراد کورنا سے متاثر اور جان کی بازی ہار چکے ہیں اس صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں ایسے تمام کاموں سے اجتناب کرنا چاہئے جو کورونا وائرس کے پھیلاو میں مدد دیتے ہیں۔

کورونا وائرس سے گھبرانے کی ضرورت ہے!

بعض افراد سوشلستان میں کورونا وائرس کا گزشتہ صدیوں میں پھیلنے والے مختلف موذی امراض سے مقائسہ کرکے یہ تاثر دینے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں کہ کورونا اتنا خطرناک نہیں جتنا کہا جارہا ہے۔ لہذا گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں!!ان افراد کی نیک نیتی پرکوئی شک نہیں ہے ان کا اصل مقصد معاشرے کو خوف و ہراس سے محفوظ رکھنا ہے؛ لیکن اس قسم کی تبلیغات سے پورا معاشرہ نہایت خطرناک حالت سے دوچار ہوگا کیونکہ اب یہ بات تجربے سے ثابت ہوئی ہے کہ گزشتہ ایک ماہ کے دوران انہی باتوں کی وجہ سے بہت سارے شہری نہ صرف خود اس شیطانی وبا کا شکار ہوئے بلکہ دوسروں کو بھی مشکل میں ڈال دیا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ کورونا وائرس سے ہلاکتیں اتنی نہیں ہوتیں جتنی دوسرے موذی امراض سے ہوتی ہیں؛ لیکن کورونا وائرس میں پھیلنے کی طاقت دیگرتمام موذی امراض سے کئی گنا زیادہ ہے لہذا کورونا ہی سب سے زیادہ خوفںاک ہے۔

ہرجاندارکی فطرت ہے کہ جب تک خوف کا احساس نہ کرے تب تک دفاع کا سوچتا ہی نہیں ہے، جو جاندار بے خوف ہوتے ہیں وہی سب سے زیادہ آفات اور بلیات کا شکار ہوکر نابود ہوجاتےہیں۔

اور یہ بھی حقیقت ہے کہ حد سے زیادہ خوف بھی جاندار کو سرتسلیم خم کرنے پر مجبورکرتا ہے اور جو جاندار چاہے انسان ہوں یا حیوان اگر حد سے زیادہ ڈر اور خوف کا شکار ہوجائے تو دفاع کے بجائے ہتھیار ڈال کر دشمن کے حملے سے پہلے ہی موت کے آغوش میں جانے کے لئے تیار ہوجاتا ہے۔

پس کسی بھی چیز میں افراط اور تفریط غلط ہے لہذا درمیانہ راستہ اختیار کرتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر پورا عمل کیا جائے اورایسے مطالب کو سماجی ذرائع ابلاغ کے ذریعے پھیلانے سے اجتناب کیا جائے جو معاشرے کو مکمل طور بے خوف یا وحشت زدہ کرنے کے باعث بنتے ہیں۔

بعض افراد کورونا وائرس کو افسانہ قرار دے کریہ باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں یہ محض ایک سیاست ہے، ان کا ماننا ہے کہ بعض ممالک کو کمزور اوربعض کو طاقتور کرنے کی سازش کی جارہی ہے؛ لیکن ہمیں کورونا کے وجود خارجی سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کوئی داستان یا افسانہ نہیں بلکہ ایک حقیقت ہے، اگرچہ بعض سیاسی طور ناجائز مفادات بھی حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔

کورونا کو افسانہ، داستان اور قصہ قرار دینے والے افراد اس بات پر مصر ہیں کہ اجتماعات میں جائیں گے،مجالس و محافل بھی منعقد کریں گے نہ تنہا اس بات پر اکتفا کرتے ہیں بلکہ مجالس و محافل کو روکنے والوں کو بدعقیدہ بھی کہتے ہیں!!!

اسی اعتقاد کے بنیاد پر مشہد مقدس میں امام رضا علیہ السلام اور قم میں بی بی معصومہ سلام اللہ علیہا کےحرم مطہرکی بندش کے خلاف کچھ گنے چنے ناسمجھ افراد نے احتجاج بھی کیا اور دھرنا دینے کی دھمکیاں دیں۔ اگر ان لوگوں میں تھوڑی سے بصیرت ہوتی تو ایسا کبھی نہیں کرتے کیونکہ اسلام ایک کامل دین کا نام ہے، پیامبر اکرم ﷺ اور آئمہ اطہارعلیہم السلام نے ہرچیز کا حل بتایا ہے بس علم اور بصیرت کی ضرورت ہے۔

جب امام حسین علیہ السلام کو احساس ہوا ہے خانہ کعبہ میں جان کو خطرہ ہے تو فوری طور پر حج کو عمرےمیں تبدیل کرکے کربلاکی طرف روانہ ہونے کا فیصلہ کیا اور امام معصوم کے اس فیصلے سے ہمیں درس ملتا ہے کہ اگر حرم الہی میں جان کے لئے کوئی خطرہ ہوتو کم سےکم خطرہ ٹلنے تک وہاں نہ جائیں۔ اس کے علاوہ کہیں کوئی سیلاب آنے کا خطرہ ہوتو دنیا کے سارے عقلا یہی حکم کریں گے سیلاب کی جگہ سے دور نکل جائیں، سیلاب کے راستے میں موجود تمام مساجد اور دینی مراکز میں جانے سے اجتناب کیا جائے اور ہرعاقل انسان ایسا ہی کرےگا۔

کورونا وائرس کے خطرات کو مد نظر رکھتے ہوئے شیعہ سنی علمائے کرام خاص کر مراجع عظام نے ہرملک کے ادارہ صحت کی جانب سے جاری کردہ ہدایات پر عمل کرنے کو لازم اور شرعی فریضہ قرار دیا ہے۔ لہذا ہمیں اپنے بزرگ علما کے بتائے ہوئے ہدایت پر بھرپورعمل کرکے عالم بشریت کو اس شیطانی وبا سے نجات دلانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔

علمائے اسلام نے کرونا وائرس کی وبا سے متعلق وزارت صحت کی جانب سے جاری ہونے والی احتیاطی تدابیر پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہوئے تاکید فرمائی ہے کہ حکومتی احکامات پر پابندی، شرعی تعلیمات کے عین مطابق ہے۔

علما نے کہا ہے کہ کسی وباءعام کے موقع پر مناسب احتیاطی تدابیر اختیار کرنا توکل کے ہرگز خلاف نہیں ہے، محکمہ صحت کی طرف سے جاری کی ہوئی تدابیر پر پوری طرح عمل کرنا شرعی فریضہ ہے، البتہ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ انسان دعا اور توسل نہ کرے تمام مومنین کو چاہئے کہ توبہ استغفار کے بعد اللہ کے حضور دعا کریں خاص کر وہ دعائیں جو اہل اطہار علیہم السلام نے کسی بھی مصیبت اور بلا کے دوری کے لئے تعیلم دی ہیں، جیسے دعا توسل، حدیث کسا اور صحیفہ سجادیہ کی ساتویں دعا جس کی رہبرمعظم نے بھی تاکید کی ہے۔

 

عالمی ادارہ صحت کی جانب جاری کردہ ہدایات:

• شہری حتی الامکان گھروں میں رہیں، غیرضروری سفر سے اجتناب کیا جائے؛

• ہاتھوں کو ایسے صابن یا جیل سے دھویا جائے جو وائرس کو مار سکتا ہو؛

• کھانستے یا چھینکتے ہوئے منہ کو ڈھانپا جائے اور اس کے فوری بعد اپنے ہاتھ دھوئیں تاکہ وائرس پھیل نہ سکے؛

• کسی بھی چیز کو چھونے کے بعد اپنی آنکھوں، ناک اور منہ کو چھونے سے گریز کیا جائے؛

• وائرس سے متاثرہ افراد سے دور رہیں؛

• ایسے لوگوں کے قریب مت جائیں جو کھانس رہے ہوں، چھینک رہے ہوں یا جنہیں بخار ہو؛

• وائرس سے متاثرہ افراد کے منہ سے وائرس والے پانی کے قطرے نکل سکتے ہیں جو کہ فضا میں ہو سکتے ہیں، ایسے افراد سے کم از کم ایک میٹر یعنی تین فٹ کا فاصلہ رکھا جائے؛

• اگر طبیعت خراب محسوس ہو تو کہیں نہ جائیں گھر میں رہنے کو ترجیح دیں جب طبیعت زیادہ خراب ہونے کا اندیشہ ہوتو فوری طور طبی ماہرین سے رجوع کیا جائے؛

• طبی حکام کی ہدایت پر عمل کریں۔

تحریر: غلام مرتضی جعفری