نئے وینٹلیٹر پاکستان میں ہی تیار کیے جارہے ہیں، وزیراعظم
وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ وینٹلیٹر درآمد اور پاکستان میں تیار کیے جارہے ہیں جن کی صلاحیت کا جائزہ لینے کے لیے ماہرین پر مشتمل کمیٹی بنادی گئی ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، وزیراعظم نے یہ ہدایات کووِڈ-19 کی صورتحال پر منعقدہ ایک اجلاس میں دیں جس میں وفاقی وزرا اسد عمر، خسرو بختیار اور حماد اظہر، وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان، ڈاکٹر ظفر مرزا، ڈاکٹر معید یوسف اور نیشنل ڈزاسٹر منیجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل شریک ہوئے۔
ملک میں ایک دن کے دوران کورونا وائرس کے کیسز میں تیزی سے اضافےکی وجہ سے وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ طبی عملے کو ذاتی تحفظ کے آلات (پی پی ای) فراہم کیے جائیں کیوں کہ وہ اس مہلک وائرس کے خلاف محاذ کے صفِ اول کے سپاہی ہیں۔
ڈاکٹر ظفر مرزا اور لیفٹیننٹ جنرل افضل نے اجلاس میں آگاہ کیا کہ ملک کے 137 ہسپتالوں میں 3 ہزار 300 وینٹیلیٹرز ہیں اور پی پی ای فراہم کرنے کے لیے ہستالوں سے براہِ راست رابطہ کیا گیا جبکہ صوبوں کو 49 ہزار 500 ٹیسٹنگ کٹس فراہم کردی گئیں ہیں اور آئندہ چند رو میں مزید فراہم کردی جائیں گی۔
اس کے علاوہ ایک اور اجلاس میں معاون خصوصی عثمان ڈار نے وزیراعظم کو آگاہ کیا کہ عوام کو ٹائیگر فورس کے حوالے سے براہِ راست اپڈیٹ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے تحت http://crt.covid.gov.pk پر لائیو اپڈیٹس چیک کی جاسکتی ہیں اور اب تک 7 لاکھ 39 ہزار افراد اس میں بطور رکن اپنا اندارج کرواچکے ہیں۔
دوسری جانب ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے معان خصوصی برائے صحت ڈاکٹڑ ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ صوبوں کو 5 لاکھ این95 ماسکس فراہم کیے جاچکے ہیں جو ان کی ضرورت سے بھی زیادہ تعداد ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے اندازے کے مطابق بلوچستان میں ایک ہزار 162 پی پی ایز کی ضرورت ہےلیکن ہم نے انہیں 5 ہزار 600 فراہم کیے لیکن اب بھی ہمیں شکایت موصول ہورہی ہیں کہ دیے گئے پی پی ایز ناکافی ہیں، بدقسمتی سے پی پی ایز کا استعمال وہ افراد کررہے ہیں جنہیں اس کی ضرورت نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پی پی ایز کے استعمال کے حوالے سے رہنما ہدایات کا اعلان 8 اپریل کو کیا جائے گا، آئیسولیشن وارڈ میں کام کرنے والے طبی عملے کو این 95 ماسکس پہننا چاہیئے جبکہ صفائی کے عملے کو آئیسولیشن وارڈ میں بھی سرجیکل ماسکس پہننا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر پی پی ایز کا غیر ضروری استعمال جاری رہا تو ہمارے پاس کبھی سامان کا ذخیرہ نہیں ہوگا۔