جانے کیا انتظام کر رہے ہیں


بے شک حکومت کی سنگین اور حساس ذمہ داری قانون اور سماجی نظم اور نسق ہے

تسنیم خبررساں ادارہ:
بے شک حکومت کی سنگین اور حساس ذمے داری قانون اور سماجی نظم اور نسق ہے جو ہر حکومت کی اولین ترجیح اور ووٹ کا مقصد اور آئین کی روح ہوتی ہے  لیکن  دُنیا  کی لا ثانی اور عظیم  ڈیموکریسی کے نظام میں جہاں جنتا جناردان کا نعرہ گوشِ فلک میں طنین فکن ہے آج چشمِ  فلک بعض غیر آئینی رویوں پر انگشت بہ دنداں ہے۔

دنیا کے سب سے طویل آئین کی تمہید ہی میں جسے پورا قانون کا ماحاصل بھی کہا جاسکتا ہے سونہرے حروف سے ہندوستان کی سالمیت کی بقاء ملحوظ نظر رکھتے ہوۓ شفاء بخش نُسخہ کے طور  پر لکھے گئے ہیں  ہم بھارت کے عوام متانت و سنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے اب یوں کیا ہوا کہ اسی سرزمین میں ہر چیز کا فیصلہ مذہب کے آدھار پر کیوں لیا جانے لگا ہے؟ قانون نے جس چیز کو اقتدار سے دور رکھا اسی کو بطور حربہ اقتدار اعلیٰ کے دوام کیلئے سرکار استعمال کیوں کرتی ہے؟

 

  جس دنیا میں ہندوستان کے عوامی نظام کے استحکام کی ضرب المثل عرصے طویل سے قائم تھی اب اسی کرے ارضی میں سرکار کے غیر ذمے دارانہ رویوں کے چلتے بھارت کو عالمی، عوامی سوالوں کے  کٹہرے میں کھڑا ہوتا دیکھنا پڑتا ہے یقینا یہ کیفیت ہر بھارتی شہری کیلئے کتنا نا گوار ہے اس کا اندازہ  ہندوستان کے حالیہ مضطرب حالات سے لگایا جاسکتا ہے۔

 

انسانی اور اسلامی حقوق کے نقطے نظر سے حکمران عوام  کے مالک نہیں ہوا کرتے بلکہ وہ عوام کے حقوق کے  امانتدار ہوتے ہیں جتنا حق عوام پر اُن کا ہے اتنا حق عوام کا اُن پر بھی ہے۔

 

 اشعث بن قیس  کے نام  حضرت امام علی علیہ السلام نے جو خط ارسال کیے آنحضرت نے مرقوم  فرمایا : یہ عہدہ تمہارے لیے کوئی آزوقہ نہیں ہے بلکہ وہ تمہاری گردن میں ایک امانت کا پھندا ہے اورتم اپنے حکمران بالاکی طرف سے حفاظت پرمامور ہو  تمہیں یہ حق نہیں پہنچتا کہ رعیت کے معاملہ میں جو چاہو کہ گزرو خبردار ! کسی مضبوط دلیل کے بغیر کسی بڑے کام میں ہاتھ نہ ڈالا کرو۔

 

حضرت علی جناب مالک اشتر کے نام پر جو خط مرسول کیے اُن میں فرماتے ہیں : ای مالک عام افراد کی ناراضگی خواص کی رضامندی کو بھی بے اثر بنا دیتی ہے اور خاص لوگوں کی ناراضگی عام افراد کی رضامند کے ساتھ قابل معافی ہو جاتی ہے اس نور بھرے کلام سے یہ نتیجہ برآمد ہوگا کہ ٹکسالی دلیل کے بغیر کسی اقدام کا آغاز کر دینا اور اشرافیہ و سرمایہ کاروں کی رضامندی کے سبب غریب عوام کا استحصال کرنا دو ایسے عناصر ہیں جو کسی بھی سیاسی نظام کے پاؤں کو لرزاں کر سکتے ہیں۔

لیکن  اس سے بھی برا حال اور بڑی زبوں حالی یہ ہے کہ جب تک مصیبت آ نہیں جاتی لوگ خطرہ محسوس نہ کرے 370 کی منسوخی کے بعد اب ریاست میں صرف معاشی اور ملازمتوں کے مواقع کا ہاتھ سے چھوٹ جانے ہی کا اندیشہ نہیں بلکہ ہمیں  زیر کرنے کا پورا خدشہ ہے مگر بعض ایسے بھی ہیں جو اس تلخ حقیقت  سے غافل اور اپنی زندگی میں مگن ہیں  نہ دل میں غم نہ ہونٹوں پر ہنسی ہے مگر کھبی نہ سوچتے اور نہ ہی پوچھتے ہیں یہ کیسی زندگی ہے۔

 

  انڈین کانسٹیوشن بلا شبہ ہر ناگرک کے حقوق کا محافظ   اور سامانِ سکون کی ضمانت ہے اس میں یہ تمام حقیقتیں جھلکتی ہیں اسی سے تو ملک اتنے سالوں سے ایکتا  اور مساوات کے ساتھ چلا  آرہا ہے ہمیں اسی کے دائرے میں رہ اس کے دامن کو تھام کر قانون سے مسلح ہوکر کام کرنا چاہیے قانون کی بالا دستی برقرار رہنا چاہیے کیوں کے اسی قانون نے ستی کی پریکٹس کو غیر قانونی قرار دیا تھا یا پھر جیسے مندروں میں شودروں کے آنے پہ پابندی تھی اس پابندی کو ہٹا کر قانونی طور پہ انہیں بھی برابری کا حق دیا گیا اس مقدس اور بچاو آئین کی تحریک میں جیت اس کی ہوگی جو قانون کے رموز سے آشنا ہونے کے علاوہ حضرت علی علیہ السلام کے قول شریف کے مطابق تدبیر کرنا نیز جانتا ہو اس کانٹے بھری راہ میں اُکتاہٹ کے سٹریم سے ہمکنار نہ ہو نہیں تو  مدت تک غفلت کے تازیانے اُمت کے پیکر پر برستے رہیں گے۔

یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے

لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

جیسے دستورِ ہند کے پہلے پنّے اور پریمبل میں  یہ بات صاف شفاف لفظوں میں لکھی جاچکی ہے کہ حب الوطنی کے جذبے کو فروغ دینے اور بھارت کے اتحاد کو برقرار رکھنا بھارت کے تمام شہریوں کی اخلاقی ذمہ داری ہے حالیہ دور میں سرکار کی دو ہی اسٹریٹجی اور نظامِ کار ہے۔

  ایک پاکستان سے منافرت  کی آتش کو بھارت میں مزید مشتعل کر کے کشمیر جیسے حساس اور مسلمانوں سے متعلق سلگتے مسائل کو زیر بحث نہ لانے دیا جائے تا کہ فیصلہ ہمیشہ ایک طرفہ ہو اور مختلف ذرائع ابلاغ اور گودی میڈیا کے توسط سے منظم منصوبے کے تحت اعلیٰ سطح پر  مسلمانوں کے مذہبی سماجی امور میں دخل اندازی کرے  بلکہ ان کو پاکستان کے دو قومی نظریہ سے جوڑ کر ان پر ہمیشہ دباؤ بنائے رکھنے میں اکثریت ہندو کے سامنے اسی بہانہ کوئی دلیل قائم کرسکے لیکن اس مرض کا واحد سدا حل اور ترکیب وہی ہے جو ہندوستان کے سابق وزیر تعلیم مولانا ابوالکلام آزاد نے برسا برس قبل پیش کی تھی جہاں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

اقلیت وہ نہیں جن کی تعداد کم ہوتی ہے اقلیت میں وہ ہیں جن کی اہمیت نہیں ہوتی ہے سچر کمیٹی جیسی رپورٹز یہ علی الاعلان کہتی ہیں  ہم کہاں سے کیسے پیچھے پچھڑے رہ گئے ہیں اور ازالہ و مداوا کیسے کرنا ہے دوسرے گھناؤنے پلان سے مقصد ہے کہ اقلیتوں پسماندہ طبقات کو ماب لنچنگ جیسے بھیانک تشدد کا نشانہ بنا کر ڈر دیکھا کر ان کے انقلابی سد ظلم والے عزائم، ہمیت، ہمت کو ہمیشہ ہمیشہ پست اور  سر جھکائے رکھنے  کیلئے  نہ روکے جانے والے مسائل و مصائب سے دوچار کرائے 

 

اگر ہم بانیان آزادی اور علم کے میناروں کے سوانحی نقوش اور ان کی خدمات کا مطالعہ اپنا نصب العین بنائیں  تو مولانا آزاد کی یہ آواز پھر گونجتی سنائی دے گی  اے مسلمان ہند اگر کوئی سیاسی اتحاد کا قائل نہیں میں اسے سیاسی مرتد سمجھتا ہوں کیونکہ مسلمانوں کے درمیان وحدت ایک عقیدہ ہی نہیں اب اسٹریٹجی ہے۔

 

26 اکتوبر 1947 کو مہاراجا ہری سنگھ اور بھارت کی حکومت کے ما بین معاہدہ ہوا تھا جس میں یہ طے پایا تھا کہ کشمیر کو آئینی طور پر خصوصی حیثیت دی جائے گی اس کو مدنظر رکھتے ہوئے 17 اکتوبر 1949 کو تاریخی آرٹیکل 370 نافذ کردیا گیا 5 اگست میں آرٹیکل 370 کو ختم کرکے وہاں حکومت وقت نے کانسٹی ٹیوشن آرڈر 2019 خصوصی آرٹیکل نافذ کردیا جس کے تحت اب بھارت وادی کو وفاق کے زیر انتظام کرنے سمیت وہاں پر بھارت کے قانون کا نفاذ بھی کیا ہے اور جس کے نتیجے میں  لداخ کا انفکاک بھی  عمل میں آیا

 

کیا اب امید کا دامن تھامنے کی گنجائش ختم ہوچکی ہے؟ کیا واقعی ایسا ہے کہ اب ہمارے اختیار میں کچھ بھی نہیں رہا؟ اگر ایسا ہے تو پھر ڈھنگ سے جینے کی امید کو بھی دم توڑ دینا چاہیے ہر طرح کی خرابی میں کسی نہ کسی درجے کی بہتری بھی مضمر ہوتی ہے  ہم سے بہت کچھ چھین چکے ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ زندگی سے بہت کچھ چھینا جاچکا ہے مگر دوسرا بہت کچھ ایسا بھی ہے جو ہمیں عطا کیا گیا ہے ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ ہم کھونے اور پانے کے معاملے کو سمجھنے کی اہلیت پیدا کریں اور اس اہلیت کے نتیجے میں اپنی اصلاح پر مائل بھی ہوں پانچ اگست کی سوغات ہمارے لیے یہ بھی ہے کہ ظلم کی طغیانیوں کے سامنے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا چاہیے ۔

 

پانچ اگست میں جو بھی جیسے ہوا آئین کے حوالے سے آج بھی اپنی جگہ پر قابل غور اور مضبوطی سے بحث انگیز سوالیہ نشان کے ساتھ زندہ کھڑا ہے اسے یاد کرنے کرانے  میں جمہوریت کی تحکیم مضمر ہے جمہوریت دیش واسیوں کے سوالوں سے مستحکم ہوتا ہے جسے دستورِ ہند نے بمطابق دفعہ 51  اس کو بنیادی فرائض میں شامل کیا۔

 

بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی) کے حامیوں اور مخالفین دنوں کے لیے پانچ اگست کا دن نظرانداز کرنا مشکل ہے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی خودمختاری کا خاتمہ اور مغل دورکی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر کا وعدہ کئی دہائیوں سے بی جے پی کے منشورکا حصہ رہا ہے شاید اسی بابت بھارتی وزیراعظم بابری مسجد کے متنازع مقام پر مندر کی تعمیر کے لیے پانچ اگست کو سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں شرکت کر رہے ہیں  لیکن اسی تاریخ کو کیوں چنا گیا؟

بھلے ہی مصائب کی آندھیوں نے ہمیں مختلف سمتوں میں پھینک دیا ہو مگر یہ گھر آج بھی ہماری جائے پناہ ہے بشرط یادوں کے ابتلا  سے نکلنے کا عزم اور صورت بدلنے کی صلاحیت موجود ہو۔

تحریر: سید محمد.ر.موسوی