ہر زمانہ میرے حُسین کا ہے ۔۔۔
آج گلستانِ زہرہ کو آپ کے بابا کا کلمہ پڑھنے والے اس طرح نوچ رہے تھے کہ آسمان خون کے آنسو رو رہا تھا اب سوائے بیمار زین العابدین علیہ السلام کے کوئی نہیں بچا تھا۔
تحریر: چودھدری عبدالغفور خان
اب شہنشاہِ شہدأ نے یزیدیت کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنے کیلئے میدانِ کربلا میں اترنا تھا۔ چشمِ فلک نے ایسا منظر کب دیکھا ہوگا جب بابا ۔ بابا حسین۔ آقا۔ آقا حسین کہنے والے امام علی علیہ السلام کے بچے اپنے بازو اور سر کٹوا کر کربلا کی سرزمین کو اپنے خون سے سیراب کر چکے تھے ابھی پاک جسموں میں تیر پیوستہ ہیں اُدھر امام حسین علیہ السلام گھوڑے پر سوار ہو کر اپنے نانا سے کیا ہوا وعدہ نبھانے کیلئے تیار ہیں آپ نے سب کو تیار کر کے میدانِ کارزار میں بھیجا مگر آپ کو اب گھوڑے پر سوار کرنے والا کوئی نہیں تھا۔
میرے آقا حسین علیہ السلام کبھی بی بی شہربانو کبھی اُم رباب کو دلاسہ دیتے ہیں اور پھر سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کو صبر کی تلقین کرتے ہیں کہ زینب میرے بعد اس ذمہ داری کو سنبھالنا ہے۔
اب شہداء اعظم کو مولاعلی علیہ السلام کی بیٹی گھوڑے پر سوار کرتی ہیں امام حسین علیہ السلام اتمامِ حجت کیلئے آخری خطبہ دیتے ہیں مگر یزیدی فوج ابنِ زیاد خنزیر کی قیادت میں ہر صورت آپ کے خون کے پیاسے تھے۔
71لاشے اپنے کلیجے پر لیے مولا علی علیہ السلام کا شیر یزیدیوں پر ٹوٹتا ہے جدھر جاتا ہے گردنیں کٹ رہی ہیں منکروں منافقوں مرتدوں کی یزیدی فوج علی علیہ السلام کے شیر کا مقابلہ نہیں کر پا رہی آخر کار تیروں کی بوچھاڑ ہوتی ہے میرے حسین علیہ السلام گھوڑے کی زین سے فرشِ زمین پر آتے ہوئے آہ بھی نہیں کرتے بلکہ کہتے ہیں اللہ حُسین تیری تقدیر پر راضی ہے تو بھی حُسین پر راضی ہو جا۔
امام حسین علیہ السلام کے جسم پاک زخموں سے چور ہے، وقت نماز ہے سر سجدے میں جاتا ہے ۔ شمر سجدے میں نواسہ رسول ﷺ مولاعلی علیہ السلام کے بیٹے سیّدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے پھول پر وار کرتا ہے۔
مولاعلی علیہ السلام کی بیٹی دیکھ رہی ہیں بھائی کا سر نیزے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ ابن سعد اور شمر خیموں میں داخل ہو کر پاک بیبیوں کی چادریں کھینچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مولا علی علیہ السلام کی بیٹی دھاڑتی ہیں ظالمو ہمارے رکھوالے چلے گئے تمھیں پتہ نہیں ہم نبیﷺ کی بیٹیاں ہیں شہیدوں کے سر نیزوں پر اور پاک بیبیو ں کو قیدی بنا کر اونٹوں پر باندھ دیا جاتا ہے۔
حضرت شہر بانو، حضرت زین العابدین علیہ السلام اور حضرت سیّدہ زینب سلام اللہ علیہا کو ایک اونٹ پر باندھا جاتا ہے جب قافلہ چلتا ہے تو حضرت زینب سلام اللہ علیہا امام حسین علیہ السلام کی لاش اطہر پر کھڑی ہو کر مدینے کی طرف آقا رسول ﷺ سے فریاد کرتی ہیں، یا رسول اللہ ﷺ یہ دیکھیں آپکا حسین ریت پر پڑا ہے بدن سے کپڑے اتار لیے گئے ہوائیں خاک اُڑا رہی ہیں نانا دیکھیں آپکی بیٹیوں کے ہاتھ باندھ دیے گئے ہیں ۔ راستے میں رات کو قافلہ رکتا ہے رات کے اندھیرے میں ایک عورت کھانا لاتی ہے کہتی میں کبھی سیّدہ فاطمہ سلام اللہ علیہا کی خادمہ تھی اس وقت سیّدہ کی گود میں 6ماہ کی بچی تھی جسے زینب کہا کرتے تھے جناب زینب سلام اللہ علیہا نے کہا امّاں پہچانتی ہو وہ زینب میں ہی ہوں۔
ادھر مدینہ میں امّ سلمیٰ ؓخواب دیکھتی ہیں کہ میرے آقا کریم ﷺ تشریف لائے ہیں۔ چہرہ اقدس پر دھول پڑی ہے آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہیں سر پر امامہ نہیں تھاگریبان چاک تھا۔اُم سلمیٰ ؓ پوچھتی ہیں یا رسول اللہ ﷺ کیا ہوا ۔ آقا کریم ﷺ فرماتے ہیں میں سارا دن کربلا میں تھا میرے حسین کو کربلا میں بھوکا پیاسا شہید کر دیا گیا۔ اُم سلمیٰ اٹھ کر دیکھتی ہیں کہ بوتل پر پڑی ہوئی مٹی جو فرشتہ لے کر آیا تھا خون بن گئی ہے اور مدینہ میں شور اٹھ گیا لوگو مدینہ اُجاڑ دیا گیا ہے نواسہ رسولﷺ کو شہید کر دیا گیا ہے ۔
آدم کی پوری نسل پہ احسان کون تھا جس پر خدا کو ناز وہ انسان کون تھا کنبے کے ساتھ دین پر قربان کون تھا نوکِ سنّہ پر قاری قرآن کون تھا …؎
اے کربلا بتا تیرا مہمان کون تھا
بس یا حسین بس یا حسین بس یا حسین
اس لیے آج ہر ایک زبان پر جاری ہے کہ : ہر زمانہ میرے حسین کا ہے ۔
جس کی خاطر کائنات بنی ایسا نانا میرے حسین کا ہے کوئی پوچھے یہ دور کس کا ہے تم بتانا میرے حسین کا ہے ہر زمانہ میرے حسین کا ہے