حضرت امام حسین علیہ السلام کی حیات طیبہ پر ایک نظر


خون او تفسیر این اسرار کرد ملت خوابیده را بیدار کرد


تحریر : سید محمد.ر.موسوی

کربلا کی عظیم درسگاہ کے انسانی نصاب اعلٰی کے ادراک کیلئے ضروری ہے مکتبِ سرخ حسینی اور وفا کی راہ کے جان نثاروں کی اخلاقیات اور منشا کی صحیح جانچ ہو خطبات امام عالی مقام کے مطالعے کے بعد یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ قتل حسین علیہ السلام امام کا قتل ہی نہیں بلکہ نظام امامت کا خون تھا وہ نظام جس کا ایک اہم پہلو  اعلیٰ اخلاق اور اقدار انسانی کی پاسبانی تھا واقعہ کربلا اخلاق اور اسلوب انسانی کی زیست اور حیات طیبہ کا دم توڑنے کا پورا خلاصہ ہے

جناب سید الشہدا نے شہزادہ حضرت علی اکبر علیہ السلام کو رن کی جانب بھیجتے وقت بارگاہ ایزدی میں عرض کیا: اللهم اشهد علی هؤلاء القوم فقد برز الیهم غلام اشبه الناس برسولک محمد خَلقاً و خُلقاً و منطقاً و کنا اذا اشتقنا الی رؤیة نبیک نظرنا الیه

پروردگارا میں تجھے اس قوم پر گواہ بنا رہا ہوں ان کے مقابلے میں ایک ایسا شخص جا رہا ہے جو تمام انسانوں میں ظاہری شکل و شمائل اور باطنی اخلاقی صفات میں تیرے رسول سے سب سے زیادہ مشابہت رکھتا ہے ہم جب بھی رسول خدا کے چہرے کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ہم علی اکبر کے چہرے کی طرف دیکھا کرتے تھے

اس عبارت سے صاف یہ انکشاف ہوتا ہے اگر رسالت مآب صل اللہ علیہ وآلہ 61 ہجری میں اپنی نور فشاں تعلیمات اور منطق کے ساتھ کربلا میں موجود ہوتے  یہی ابو جہل کے تفکر کے پیروکار اقتدار کے پوجاری اب کی بار اسلام کے نام مصطفیٰ کا خون کرتے اور دیں حق کی شمع فروزاں کو بھجا دیتے بہ عبارت دیگر امام فرماتے ہیں: جنہوں نے  شبیہ مصطفیٰ کا احترام نہیں کیا وہ خود مصطفٰی کا احترام کیسے کر سکتے تھے تعجب خیز بات یہ ہے کہ بعض علماء قاتلین حسین کے مسلک اور فرقے سے الجھ گئے ہیں حالانکہ در حقیقت ان کے اصل اسلام اور مسلمانیت پر دم دار سوال کھڑا ہے

خون او تفسیر این اسرار کرد

ملت خوابیده را بیدار کرد

علّامہ اقبال فرماتے ہیں : امام حسین کے مقدس خون نے ایک خوابیدہ ملت کو نئی گرمی اور بیداری عطا کی اور صحرائے کربلا پر اِلا اللہ کا نقش ثبت کرکے ہماری نجات کا سرنامہ تحریر کیا

ابناء نبی لخت جگر بتول آئینہ دار خلق رسول کے بعض کمالاتِ عملیہ کے نمونے قارئین کے پیش نظر ہیں کیوں عشقِ رسول کا تقاضا حسنین کی محبت اور ذکر ہے چنانچہ حضور اکرم نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا : اذکرکم الله فی اهل بیتی

امام عالی مقام کے عظیم عملی کارناموں سے صفحات تاریخ چھلک رہے ہیں یہاں صرف بطور نمونہ بعض واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے

جود و سخا

 اخلاقی فضائل میں سے سخاوت ایک بہت بڑی اچھی خصلت ہے اس کی افراط سے اسراف اور تفریط سے بخل جنم لیتے ہیں لہذا سخاوت میں محل اور بے محل اہل اور نا اہل کا خیال کرنا بھی ضروری ہوتا ہے خاندان نبوت سے بہتر اس کے صحیح مقام کو اور کون پہچان سکتا تھا وہ سخاوت کرتے وقت یہ معلوم کر لیتے تھے کہ کون کس قدر مروت و احسان کا حقدار ہے؟ پھر اس کے استحقاق کے مطابق اس کے ساتھ حسن سلوک فرماتے تھے

چنانچہ نقل ہے  ایک مرتبہ ایک آدمی جو اپنے چچا زاد کو قتل کیا تھا دوسروں کی مدد سے بالکل مایوس ہو کر حضرت امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا عرض کیا: یابن رسول اللہ میں نے کامل دیت کی ضمانت دی ہے اور اس کی ادائیگی سے قاصر ہوں میں نے خیال کیا کہ کسی کریم و سخی ترین انسان سے سوال کروں اور جب سوچا تو خاندانِ نبوت سے زیادہ کریم و شریف کسی کو نہ پایا اس لیے آپ سے مستدعی ہوں کہ اس کی ادائیگی کا کوئی بندوبست کر دیجیئے آنجناب نے فرمایا: میں تم سے تین مسئلے دریافت کرتا ہوں اگر ایک مسئلہ کا جواب دیا تو ایک حصہ دیت ادا کروں گا اور اگر دو کا دیا تو دو حصہ اور اگر تینوں کا جواب دے دیا تو پھر پوری دیت ادا کردوں گا اعرابی نے یہ سن کر عرض کیا: یابن رسول الله آپ جیسا صاحب علم وفضل سوال کرے میری کیا مجال ہے کہ جواب دے سکوں  آپ نے فرمایا: میں نے اپنے جد نامدار سے سنا ہے کہ:  (المعروف بقدر المعرفت)  معرفت کے مطابق حسن سلوک کرنا چاہئے اعرابی نے عرض کیا: اچھا پوچھئے اگر جواب معلوم ہوا تو عرض کروں گا ورنہ آپ سے ہی استفادہ کروں گا امام عالی مقام نے فرمایا: (ای الاعمال افضل؟)  افضل ترین عمل کونسا ہے؟ اعرابی نے عرض کیا: (الایمان بالله)  اللہ پر ایمان لانا  امام نے فرمایا: (فما النجاة من المهلکة؟)  ہلاکت سے بچنے کا ذریعہ کیا ہے؟ اعرابی نے عرض کیا: (الثقة بالله) خدا پر بھروسہ کرنا پھر آنجناب نے فرمایا: (فما یزین الرجل؟) انسان کے لیے باعث زینت کیا ہے اعرابی نے عرض کیا: (علم معه حلم)  وہ علم جس کے ساتھ بردباری ہو امام نے فرمایا: اگر یہ موجود نہ ہو تو پھر کہا: (مال معه مروة)  پھر وہ مال جس کے ساتھ سخاوت ہو امام نے فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر ؟ اس نے عرض کیا: (فقر معه صبر) پھر وہ فقر و فاقہ ہو جس کے ساتھ صبر وشکر ہو امام نے فرمایا: اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر کیا؟  اعرابی نے کہا: (فصاعقة تنزل من السماء فتحرقه فانه اهل لذلک)  پھر آسمان سے بجلی گرے جو اسے جلا کر راکھ کر دے کیونکہ اس صورت میں وہ اسی بات کا مستحق ہے اعرابی کا یہ جواب سن کر امام  نےمسکرائے اور ہزار  دینار کی تھیلی اسے مرحمت فرمائی اور مزید برآں اسے ایک انگوٹھی عطا کی جس کے نگینہ کی قیمت دو سو درہم تھی اور فرمایا:  اے اعرابی یہ سونا اشرفیاں تو اپنے طلبگاروں کو دے اور انگوٹھی اپنی ضروریات پر صرف کر اعرابی نے یہ آیت پڑھتے ہوئے کہ (والله أعلم حیث یجعل رسالته) خدا  بہتر جانتا ہے کہ اپنی رسالت کہاں رکھے

 

ہمدردی خلائق

 حدیث نبوی میں وارد ہے (خبر الناس من نفع الناس) بہترین خلائق وہ آدمی ہے جو سب سے زیادہ لوگوں کو نفع پہنچاۓ حضرت امام حسین علیہ السلام بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک غلام کو دیکھا کہ وہ کتے کو روٹی کھلا رہا ہے میں نے اس کا سبب دریافت کیا اس نے کہا: میں غمزدہ ہوں اس کتے کو خوش کر کے اپنی خوشی کا خواہشمند ہوں میرا مالک یہودی ہے جس سے میں علیحدگی چاہتا ہوں امام فرماتے ہیں میں نے اپنے جد امجد سے سونا تھا کہ (افضل الاعمال بعد الصلوة ادخال السرور فی قلب المؤمنین بما لا اثم فیه)  نماز کے بعد بہترین عمل یہ ہے کہ بغیر گناہ کا ارتکاب کیے اہل ایمان کو خوش کیا جائے چنانچہ میں اس کی قیمت دو سو دینار لے کر اس یہودی سردار کے پاس گیا اور اپنامدعا بیان کیا یہودی نے  کہا: غلام آپ کے قدموں کا صدقہ ہے اور یہ باغ بھی اس کا ہے اور آپ کی رقم بھی واپس کرتا ہوں میں نے کہا: میں یہ رقم تم کو ہبہ کرتا ہوں یہودی نے کہا: میں اسے  قبول کر کے غلام کو ہبہ کرتا ہوں امام نے فرمایا: میں غلام کو جو میری ملکیت میں داخل ہو چکا تھا آزاد کر کے یہ سب مال و منال اسے بخشتا ہوں یہ مظاہرہ دیکھ کر اس غلام کی بیوی نے کہا:  میں اسلام قبول کرتی ہوں اور اپنا حق مہر بھی اسے معاف کرتی ہوں یہ منظر دیکھ کر یہودی نے کہا: (و انا ایضا اسلمت و اعطیتها هذه الدار) میں بھی اسلام لاتا ہوں اور یہ گھر اس عورت کو عطا کرتا ہوں

 

 تواضع اور بخشش

 

فروتنی و انکساری جس کی ضد تکبر و غرور ہے دیگر  اخلاقی فضائل کی طرح ایک بہت بڑی عمدہ اخلاقی صفت ہے دوسری صفات جلیلہ کی طرح یہ صفت بھی ائمہ اطہار میں بدرجہ اتم پائی جاتی تھی حضرت امام حسین علیہ السلام کی تواضع پسندی اور غرباء و مساکین پرشفقت و مہربانی مشہور عالم ہے

 ایک بار آپ چند مساکین کے پاس سے گزرے جو ایک چادر پر روٹیوں کے کچھ ٹکڑے پھیلائے بیٹھے تھے  آپ نے ان پر سلام کیا انہوں نے جواب سلام کے بعد آپ کو دعوت شرکت دی آپ ان کے ہمراہ دو زانو ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا: (ولولا انه صدقة لاکلت معکم)  اگر یہ روٹیاں صدقہ کی نہ ہوتیں جو کہ ہم پر حرام ہے تو ضرور میں تمہارے ساتھ کھانے میں شریک ہو جاتا اس کے بعد ان سے فرمایا: میرےگھر چلو چنانچہ ان کو گھر لے جا کر عمدہ  کھانا کھلایا کپڑے پہنائے اور چند درہم بھی عطا کیے

 دوّم: روز عاشور حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت عظمی کے بعد ان کی پشت اقدس پر گھٹوں کے کچھ شان دیکھے گئے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے اس کا سبب پوچھا گیا آپ نے فرمایا:  کہ آنجناب بیواؤں، یتیموں اور غریبوں اور مسکینوں کے گھروں میں ضروریات زندگی اپنی پشت پر اٹھا کر لے جاتے تھے یہ اسی کے آثار ہیں

عفو اور درگذر

  ایک مرتبہ آپ بیت الخلاء میں داخل ہوئے وہاں روٹی کا ایک لقمہ یکھا اٹھا کر غلام کو دیا اور فرمایا: جب میں باہر آؤں تو یہ لقمہ مجھے دینا غلام نے صاف کر وہ لقمہ کھالیا جب آپ باہر تشریف لائے تو پوچھا: وہ لقمہ کہاں ہے؟ غلام نے عرض کیا: میرے آقا وہ تو میں نے کھالیا ہے یہ سننا تھا کہ امام نے فرمایا: جا تو راہ خدا  میں آزا ہے کسی نے عرض کیا: یابن رسول اللہ اتنی سی بات پر اسے پروانہ آزای دے دیا امام عالی مقام  نے جواب میں فرمایا: میں نے اپنے جد امجد سے سنا ہے کہ جو کہیں لقمہ پڑا ہوا دیکھ لے اور اگر صاف کرنے کے قابل ہے تو اسے صاف کر کے یا اگر دھونے کے لائق ہے تو دھو کر اسے کھا لے تو قبل اس کے کہ وہ اس کے پیٹ میں ہضم ہو خدا اسے آتش جہنم سے آزا کر دیتا ہے میں نہیں چاہتا کہ ایک ایسے شخص کو غلام رکھوں جسے خدا نے آتش جہنم سے آزاد کردیا ہے

 

عبادت اور بندگی

 

عبادت وہ گراں قر چیز ہے جسے خلق عالم نے جن و انس کی خلقت کی اصلی غرض و غایت قرار دیا ہے بلا خوف اور شبہہ کہا جا سکتا ہے کہ کائنات میں جس طرح سرکار رسالت مآب اور آل محمد علیہم السلام نے خشوع اور خضوع کے ساتھ یزدان پاک کی عبادت کی ہے کہیں اس کی نظیر کا ملنا ناممکن ہے

روایات میں وارد ہے کہ جب جناب امام حسین علیہ السلام نماز کے لیے وضو فرماتے تھے تو رنگ مبارک متغیر ہو جاتا اور اعضا میں کپکپی پیدا ہو جاتی تھی لوگوں کے عرض کرنے پر کہ فرزند رسول آپ کی یہ حالت کیوں ہو جاتی ہے؟ فرماتے تھے: (حق لمؤمن وقف بین یدی الملک الجبار ان یصفر لونه و ارتعت مفاصله) مومن کو چاہئے کہ وہ جب اپنے جبار وقہار باشاہ کی بارگاہ میں حاضر ہو تو اس کا رنگ زرد پڑ جائے اور جوڑوں میں کپکپی پیدا ہو جائے

 ایک مرتبہ کسی شخص نے عرض کیا مولا  آپ اس قدر خدا سے کیوں ڈرتے ہیں؟ فرمایا: (لا یأمن یوم القیامة الا من خاف الله فی الدنیا) بروز قیامت وہی لوگ امن و امان میں ہوں گے جو دنیا میں خدا سے ڈرتے ہیں

ارباب تواریخ نے لکھا ہے کہ آنجناب نے پورے پچیس حج پیاده پا کیے حالانکہ سواریاں ہمراہ ہوتی تھیں  ایک مرتبہ کسی نے دریافت کیا: فرزند رسول جب سواری موجود ہے تو پھر سوار کیوں نہیں ہوتے؟ اور اگر سوار نہیں ہونا تو پھر سواری همراه کیوں لاتے ہیں؟ فرمایا: سوار اس لیے نہیں ہوتے کہ خدا سے حیا دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کے گھر کی زیارت کو جائیں اور سوار ہوکر جائیں اور سواری اس لیے ساتھ لاتے ہیں کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم مجبوری کی بنا پر پیدل چل رہے ہیں

آپ کو عبادت الٰہی کا اس درجہ شوق تھا کہ شب عاشور آپ نے محض عبادت کیلئے بمشکل ابنِ سعد سے مہلت لی تھی شب عاشور سخت رات تھی دنیا بھر کے مصائب حضرت پر ہجوم کیے ہوئے تھے ایسے وقت میں خدا سے مناجات اور معبود حقیقی کی عبادت کرنا انہی کا کام تھا

ایک زخمی مظلوم کو چاروں طرف سے دشمن گھیرے ہوئے تھے وار پر وار کررہے تھے اور ایک حسین تھا جو نرغے اعداء میں نماز عشقِ ادا کررہے تھے

لباس ہے پھٹا ہوا، غبار میں اٹا ہوا

تمام جسم نازنیں، چھدا ہوا، کٹا ہوا

یہ کون ذی وقار ہے، بلا کا شہ سوار ہے

کہ ہے ہزاروں قاتلوں کے سامنے ڈٹا ہوا

یہ بالیقیں حسین ہے نبی کا نورِ عین ہے