پاکستان میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکانے اور شیعہ سنی کو لڑانے کی منظم سازش


پارلیمنٹ میں ہونے والی بحث کو دیکھتا ہوں، ٹی وی ٹاک شوز کا نظارہ کرتا ہوں یا پھر ڈرائنگ روموں میں ہونےوالی میٹنگز کی روداد کے بارے میں سنتا ہوں تو مجھے پاکستان تیرہویں صدی کا بغداد دکھنے لگتا ہے۔ جب ہلاکو خان کی تاتاری افواج نے بغداد کا محاصرہ کررکھا تھا تو وہاں غیرضروری فقہی مسائل پر مناظرے جاری تھے۔

تجزیہ: سلیم صافی

اس وقت پاکستان کی کم وبیش یہی حالت ہے کہ ہر طرف سے خطرات ہیں لیکن حکمران خلیفہ المعتصم بنے ہوئے ہیں، سیاستدان، صحافی، مولوی، دانشور اور سب سے بڑھ کر ملک کے حقیقی مالک اسی طرح غیرضروری مناظروں میں لگے ہوئے ہیں جس طرح اس وقت کے بغداد کے علمائے کرام لگے تھے۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں یہی بحث جاری ہے کہ نواز شریف بیمار ہے یا نہیں ہے، زرداری نے ڈیل کردی ہے یا نہیں۔

فلاں چور ہے، فلاں کرپٹ ہے۔ صرف حکومت نہیں بلکہ اپوزیشن بھی سیاسی بونوں کے ہاتھ میں نظر آرہی ہے۔ حکومت، حکومت نہیں کررہی اور اپوزیشن،اپوزیشن نہیں کرسکتی۔ ایک ادارہ دوسرے کو بلیک میل کررہا ہے، دوسرا تیسرے کو۔ کوئی اپنی گرفت کا دائرہ بڑھا رہا تو کوئی اپنی بقا کے لئے ہاتھ پائوں ماررہا ہے۔ حالانکہ اس وقت ریاست کے وجود کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ ان خطرات میں سے آج صرف ایک کا ذکر کر رہا ہوں۔

یہ خطرہ فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکانے اور شیعہ سنی کو لڑانے کی منظم سازش کا ہے۔ لگتا ہے کہ انڈیا جیسے پاکستان کے ازلی دشمنوں اور دیگر بیرونی طاقتوں نے اس کے لئے طویل اور منظم منصوبہ بندی کی ہوئی ہے۔ اگرچہ اہلِ تشیع کے اکابر علما اور مستند تنظیمیں یا پھر اہلِ سنت کے اکابر اور جماعتیں اس عمل کا حصہ نہیں اور پہلی مرتبہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بیٹھ کر آگ بجھانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن کچھ ایسے عناصر سامنے آئے ہیں کہ جو اپنی نازیبا حرکتوں سے جذبات کو بھڑکا رہے ہیں۔

یہ اختلافات صدیوں سے موجود تھے لیکن جب اختلافات علمی حلقوں تک محدود ہوں تو وہ علمائے کرام اختلاف کی حدود و قیود کا خیال بھی رکھتے ہیں اور دوسرے فرقے کی حساسیت سے بھی واقف ہوتے ہیں تاہم جب یہ علمی مباحث عوام کی صفوں میں آجاتے ہیں تو پھر وہ ان حدود کا خیال نہیں رکھ سکتے۔ المیہ ہے کہ سوشل میڈیا کی وجہ سے ہر شخص مفتی، مولوی اور صحافی بن گیا ہے۔

جس کے دل میں جو آتا ہے، وہ وڈیو کلپ بنا کر سوشل میڈیا پر چڑھا دیتا ہے جو دوسرے مسلک کے لوگوں کو اشتعال دلاتا ہے۔ حالیہ دنوں میں بھی چند شرپسندوں نے ایسی حرکتیں کیں۔ بدقسمتی یہ ہے کہ حکومت اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہی بلکہ اس کی صفوں میں بعض افراد ان شرپسندوں کے پشتی بان پائے گئے۔

دوسری طرف جو حکمران ہیں، ان کو ان ایشوز کی نزاکتوں کو علم ہے اور نہ ان کو اپوزیشن اور میڈیا کو لتاڑنے یا قابو کرنے سے فرصت۔ چنانچہ سوشل میڈیا پر ایک ایسی بحث چل نکلی ہے کہ جو فساد پھیلانے کے لئے کافی سے بھی زیادہ ہے۔

دوسری طرف ہمارے تین دوست ممالک بھی اس میدان میں کود پڑے ہیں اور ڈیجیٹل میڈیا میں سرمایہ کاری کے ذریعے وہ اپنے قومی مفادات کی جنگ اور پراکسی وار کو پوری شدت کے ساتھ پاکستان منتقل کررہے ہیں جو یہاں فرقہ واریت کی شکل اختیار کررہی ہے۔

انڈیا جیسے دشمنوں نے بلوچستان کے علاوہ اب زیادہ نظریں گلگت بلتستان، بلوچستان، کرم ایجنسی اور کراچی جیسی جگہوں پر جما رکھی ہیں لیکن بدقسمتی سے ان سب جگہوں کو ہمارا مقتدر اور حکمران طبقہ اِس آئینے میں نہیں، بلکہ وقتی سیاسی مفادات کے آئینے میں دیکھ رہا ہے۔ مثلاً گلگت بلتستان میں سابق وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمٰن نے بڑی حکمت کے ساتھ اس مسئلے کو قابو کررکھا تھا۔

اب سیاسی بنیادوں پر ایک ضعیف بیوروکریٹ کو نگران وزیراعلیٰ بنا دیا گیا ہے جبکہ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ نگران کابینہ کے بعض وزیر پیسے لے کر لگائے گئے ہیں۔ گویا ایک طرف گلگت بلتستان دشمن کے نشانے پر ہے اور دوسری طرف ہم نے اس کو ایسے لوگوں کے سپرد کردیا ہے۔ حکومت کی وہاں ترجیح ان مسائل پر توجہ دینا نہیں بلکہ اگلے الیکشن میں سابقہ الیکشن کی تکنیک استعمال کرکے اپنی جیت نظر آتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل اور ملی یکجہتی کونسل جیسی تنظیموں کا کردار کئی حوالوں سے قابلِ اعتراض بھی لیکن حقیقت یہ ہے کہ فرقہ واریت کے مسئلے کو کنٹرول کرنے میں ان تنظیموں نے اہم کردار بھی ادا کیا تھا۔

اب المیہ یہ ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلامی جیسی تنظیمیں سیاسی عمل سے باہر کردی گئی ہیں جس کی وجہ سے وہ ماضی کی طرح قائدانہ کردار ادا کرنے کو تیار بھی نہیں جبکہ مسئلے کو سرکاری مولویوں یا پھر ان لوگوں کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جو خود فرقہ واریت کے فروغ میں ملوث رہے ہیں۔

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس وقت خفیہ ایجنسیاں بھی دن رات فساد پھیلانے والے ان عناصر کا پیچھا کرتیں اور پولیس کی بھی اولین ڈیوٹی ان لوگوں کی سرکوبی ہوتی لیکن بدقسمتی سے خفیہ ایجنسیوں کا داخلی کام اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ ان ایشوز پر کماحقہ توجہ نہیں دے سکتیں جبکہ پولیس کو تومفلوج کردیا گیا ہے۔

ہم ریپ جیسے سنگین مسائل کا تو ذکرکررہے ہیں اور یقیناً فساد فی الارض کے قرآنی قانون کی رو سے ریپ جیسے جرائم کے لئے سنگین ترین سزائیں تجویز کی جانی چاہئیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس وقت صحابہ کرامؓ یا پھر اہلِ بیت اطہار کے بارے میں زبان درازی کرتے ہیں، وہ فساد فی الارض کے بدترین شکل کے مرتکب ہورہے ہیں اور یہی وہ لوگ ہیں کہ انہیں اور ان کے سہولت کاروں کو عبرتناک سزائیں دینی چاہئیں۔

قرآن میں سخت ترین اور عبرت ناک طریقے سے قتل کی سزا فساد فی الارض پھیلانے والوں کی بیان کی گئی ہے اور جو لوگ اس وقت کسی بھی نیت سے شیعہ سنی فساد کروانا چاہتے ہیں، ان سے بڑا فسادی کوئی نہیں۔ یوں ریپ کے مجرموں سے بھی زیادہ عبرتناک سزائیں ان لوگوں کو ملنی چاہئیں۔

یہ اس ملک کے اصل چیلنجز اور مسائل ہیں لیکن نہ کبھی عمران خان کے منہ سے ان کا ذکر سننے کو ملتا ہے، نہ بلاول کے منہ سے اور نہ ہی نواز شریف کے منہ سے۔

 بدقسمتی سے جن لوگوں نے، ان شرپسند عناصر سے نمٹنا تھا، وہ سیاستدانوں اور میڈیا کو سیدھا کرنے میں لگے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ شرپسند اور ان کے سرپرست دندناتے پھر رہے ہیں۔ اب یہ تاتاریوں کے حملے کے وقت کے بغداد والی کیفیت ہے یا نہیں؟