گوجرانوالہ میں جلسے میں ہزاروں یا لاکھوں؟ متضاد دعوے/اعداد و شمارجاری


گوجرانوالہ جلسے میں کتنے افراد تھے؟ حکومت اور اپوزیشن نے الگ الگ دعوے کئے ہیں۔

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، اپوزیشن اور حکومت کی طرح مقامی ذرائع ابلاغ نے بھی مختلف دعوے کیے ہیں۔

دنیانیوزکے مطابق گوجرانوالہ جلسے میں باہر اندر عوام ملا کر تقریبا 40 ہزار فراد موجود تھے، جو دس بجے کے بعد اچانک تعداد کم ہونا شروع ہوگئی، جبکہ بیس ہزار کے قریب افراد جلسہ گاہ کے باہر مختلف جگہوں پر موجود تھے، وہ تعداد بھی دس بجے کے قریب اچانک پچاس فیصد سے کم ہوگئی، جو شام ہوتے ہی مزید کم ہوگیا اور خواتین کی تعداد بہت ہی کم رہ گئی جب نوازشریف نے تقریر شروع کی تھی تو اس وقت کل ملاکر جلسے میں تقریبا آٹھ ہزار افراد موجود تھے، اور اسی طرح جلسہ گاہ کے باہر بھی پچاس سے ساٹھ فیصد تک عوام دس بجے کے بعد چلی گئی، مولانا کی تقریر شروع ہوئی تو مزید عوام پنڈال سے واپس روانہ ہونا شروع ہوگئی۔

روزنامہ جنگ کے مطابق حکومتی ایجنسیوں کا خیال ہے کہ گوجرانوالہ جلسہ میں شرکاء کی تعداد 40 سے 50 ہزار ہے جبکہ اپوزیشن کا کہناتھاکہ تعداد لاکھوں میں ہے۔

روزنامہ خبریں نے بتایا کہ ن لیگ کا کہنا ہے کہ ایک لاکھ لوگ ہیں، پی ٹی آئی کے بقول بیس ہزار اور ایجنسیوں کا خیال ہے کہ اٹھارہ ہزار لوگ تھے تاہم اخبار کے آزاد ذرائع کا کہنا ہے کہ تیس ہزار سے زائد لوگ تھے۔

روزنامہ دنیا کی رپورٹ کے مطابق مریم نواز جب جاتی عمرہ سے روانہ ہوئی تو اس وقت ایک ہزار 18 گاڑیاں شامل تھیں یعنی کل تقریبا چارہزارسے پنتالیس سو افراد موجود تھے اڈاپلاٹ میں تقریبا ایک ہزار افراد موجود تھے جس کے بعد رنگ روڑ سے راستہ بند ہونے کے سبب کئی گاڑیاں واپس چلیں گئیں اور جب مریم نواز کا قافلہ آزادی چوک پہنچا تو وہاں پر چار ہزار کے قریب افراد نے خوش آمدید کہا اسی طرح شاہدرہ میں آٹھ ہزار سے دس ہزارافراد موجود تھے، کل قافلہ تقریبا جو امامیہ کالونی کے پاس پہنچا وہ تقریبا بیس ہزار کے لگ بھگ تھا اور امامیہ کالونی پھاٹک کے بعد کئی عوام واپس رش ہونے کے سبب اور کئی عوام لاہور سے باہر جلسہ ہونے کے باعث واپس چلی گئی اور مریم نواز کا قافلہ جو گوجرانوالہ پہنچا وہ تقریبا بارہ ہزار سے پندرہ ہزار کے قریب تھا، اسی طرح مولانا فضل الرحمن کا قافلہ جب لاہور سے نکلا تو کل تعداد پانچ ہزار کے قریب تھے جو کبھی زیادہ اور کم ہوتی رہی گوجرانوالہ میں پہنچنے پر تعداد پندرہ سے دو ہزار کے قریب تھی اور کل گاڑیاں مولانا کے قافلے میں 91 تھیں۔

زرائع کے مطابق بلاول بھٹو کا قافلہ جب لالہ موسی سے نکلا تو اس وقت کل تعداد6 ہزار سے 8 ہزار تھی جو بعض جگہوں سے گزرتے وقت زیادہ اور کم ہوتی رہی اور جب جلسہ گاہ میں پہنچے تو تعداد تقریبا 8 ہزار کے قریب تھی، گوجرانوالہ جلسہ گاہ میں جلسے کے روز صبح سے عوام آنا شروع ہو گئی اور تقریبا پندرہ ہزار کے قریب افراد گوجرانوالہ سے نکلے جس کے بعد بہت ساری عوام انتظار کرتی کرتی واپس چلی گئی اور پھر شام کو مزید قافلے شامل ہوتے گئے جو تعداد تقریبا جلسہ گاہ میں سیڑھیوں اور کرسیوں کی ملا کر تقریبا بیس ہزار اور جلسہ گاہ کے باہر عوام جن کو جلسہ گاہ کے اندر جانے کی اجازت نہ ملی وہ تقریبا بیس ہزار کے قریب افراد تھے.

 جلسے سے متعلق اسپیشل برانچ کے مختلف افسران نے ضلع کے حساب سے اپنی اپنی رپورٹ دی اور اسپیشل برانچ زرائع کے مطابق جلسے گاہ اور جلسے کے باہر کل عوام ملاکر تقریبا پچیس ہزار افراد تھے، جبکہ انٹیلی جنس بیورو زرائع کے مطابق بائیس ہزار سے پچیس ہزار، دیگر حساس اداروں کے مطابق کل تعداد تقریبا پندرہ سے اٹھارہ ہزار تھی.

غیر جانبدار زرائع کے مطابق جلسے کے اندر اور باہر عوام کل ملاکر تقریبا چالیس ہزار کے قریب تھی مریم نواز اور مولانا فضل الرحمن کیساتھ آنیوالے قافلے میں شریک افراد کو جلسہ گاہ کے اندر جانے کی اجازت ہی نہ مل سکی صرف قائدین کو جلسہ گاہ اسٹیج پر جانے کی اجازت دی گئی.

تمام قافلوں میں متعلقہ ضلعی انتظامیہ کی جانب سے جہاں سے قافلہ گزر رہا تھا وہاں سے ٹریفک بند نہ کی گئی جس وجہ سے معمول کی ٹریفک بھی بعض جگہوں پر قافلے میں شامل رہی جس میں پبلک و پرائیویٹ ٹرانسپورٹ بھی شامل رہی ہے جبکہ مسلم لیگ ن کے سینئر رہنما محمد زبیر،ایاز صادق اور دیگر نے دعوی کیا کہ پچاس ہزار سے زائد افراد قافلے میں تھے اور ایک لاکھ سے زائدُافراد جلسہ میں شریک تھے۔

 پنجاب حکومت کے مطابق سب جماعتیں ملکر صرف چند ہزار افرادجلسے کےلئے اکٹھا کرسکی ہے، دوسری جانب قافلوں میں اور جلسہ میں شامل زیادہ تر وہ عوام تھی جو مہنگائی کے خلاف نعرے لگا رہی تھی اور مہنگائی کے خلاف غم و غصے کا اظہار بھی کرتے رہے۔