گلبدین حکمت یار کی صدرعارف علوی سے ملاقات/ پاک افغان تعلقات پر تبادلہ خیال


پاکستانی صدر ڈاکٹرعارف علوی سے حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ گلبدین حکمت یار نے وفد کے ہمراہ ملاقات کی جس میں افغان امن عمل اور پاک افغان تعلقات کے حوالے سے تفصیلی بات چیت کی گئی۔

تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار کا کہنا ہے کہ امریکا افغانستان میں کوئی ہدف حاصل نہیں کرسکا اور ان کی اپنی مسلط کردہ کابل حکومت اسے ڈبونے کا موجب بنی جب کہ افغان حکومت کو اب بچانا مشکل ہے۔

بعد ازاں اخباری نمائندوں سے بات کرتے ہوئے افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین حکمت یار نے کہا کہ عبداللہ عبداللہ اگر افغانستان سے آئے تو وہ وہاں کی حکومت کا حصہ ہیں، افغان لیڈرز کے پاکستان آنے کا مطلب امن کا پیغام ہے، میں یہاں جنگ کے خاتمے کیلئے آیا ہوں، مجھے امریکیوں نے بھی ملنے کا کہا لیکن ہم نے اسے مسترد کر دیا۔

گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ طالبان سے ہمارے رابطے ہیں اور ان سے ہماری دیگر گروپس میں بات ہوگی، طالبان کہتے ہیں کہ افغان حکومت مستعفی ہو جنگ ان کی وجہ سے ہے، وہاں غیر جانبدار حکومت آئے، بے شک اس میں طالبان بھی نہ ہوں،  ٹینک، جہاز سے بمباری کی جائے اور امن صرف طالبان سے مانگا جائے یہ نہیں ہوسکتا، سول سوسائیٹی اور خواتین کے حقوق ثانوی باتیں ہیں اصل بات امن لانا ہے۔

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ نے کہا کہ کابل حکومت اب مستعفی ہو جائے، کابل حکومت تو اپنے ایوان صدر کے قرب وجوار میں بھی امن رکھنے کے قابل نہیں جب کہ ٹرمپ ہار بھی گئے تو امریکہ اب افغانستان سے جائے گا، افغانستان سے انخلاء امریکا کی سی آئی اے اور دیگراداروں کا فیصلہ ہے، امریکہ طالبان سے معاہدہ نہ بھی کرتا تو اسے وہاں سے نکلنا تھا، ہمارا مطالبہ ہے امریکہ نکلتے ہوئے سب افغانوں کو اکٹھا بیٹھانے میں کردار ادا کرے اور بیرونی قوتوں کو تمام افغان دھڑوں کو بٹھانے میں کردار ادا کرنا چاہئے۔

گلبدین حکمت یار کا کہنا تھا کہ حزب اسلامی اور طالبان مل کر افغان مسئلے کاحل نکال سکتے ہیں، سب افغانوں کو مل کر حل نکالنا ہو گا وہی پائیدارحل ہو گا، قطر مذاکرات کا افغان بحران کے حل میں کوئی فائدہ نہیں ہوگا، دوحا مذاکرات افغان ایوان صدراور طالبان کے درمیان ہو رہے ہیں ہم اس کا حصہ نہیں، ہم چاہتے تھے کہ افغان حکومت کا سیٹ اپ مذاکرات سے قبل ختم ہو۔

افغانستان کے سابق وزیراعظم گلبدین نے کہا کہ امریکہ افغانستان میں کوئی ہدف حاصل نہیں کرسکا،  وہ 20 سال میں صرف تابوت لے جاتا رہا، یہاں نیٹو، سوویت یونین سب کو شکست ہوئی، امریکہ کے جانے کے بعد کوئی بھی دوسرا ملک یا قوت یہاں نہیں ٹھہر سکتی، امریکیوں کی اپنی مسلط کردہ کابل حکومت اسے ڈبونے کا موجب بنی جب کہ افغان حکومت کی کشتی میں سوراخ ہو چکے ہیں اسے ڈوبنا ہی ہے، کابل کی حکومت جانے والی ہے اب اسے بچانا مشکل ہے۔

حزب اسلامی افغانستان کے سربراہ نے کہا کہ دہلی اسلام آباد ایک نقطے پر آئیں کہ وسط ایشیا تک سکون ہو اور سب کو فائدہ ہو، انڈیا کو بھی وسط ایشیا تک کا آسان راستہ امن سے ملے گا، مطالبہ ہے کہ غیر ملکی افوج کے انخلا ء کے ساتھ ہی افغانستان میں ایسی حکومت ہو جو خود افغان چنیں، بہت سے عناصر جنگ چاہتے ہیں جنہیں اس کا فائدہ ہو، افغان حکومت خود بھی جنگ کا خاتمہ نہیں چاہتی، یقین ہے کہ جو جنگ چاہتے ہیں وہ شکست سے دوچار ہوں گے۔

 

گلبدین حکمت یار نے مزید کہا کہ جنگ میں صلح مشکل کام ہے پاکستان کی وجہ سے بین الافغان بات چیت شروع ہوئی، امریکہ طالبان مذاکرات میں پاکستان کا کلیدی کردار ہے، پاکستان کی قیادت تو خود افغانستان میں امن چاہتی ہے، آج بھی افغانستان کی جنگ سے سب سے زیادہ متاثر ملک پاکستان ہے، افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف ہم اور آپ مل کر لڑے اور اسے شکست دی۔