ترکی بغاوت میں "گولن" کا ہاتھ/ باغی گروپ کے2000 حامیوں کا فوجی اداروں میں نفوذ
ترکی کے ریٹائرڈ فوجی جنرل اور فوجی انٹیلی جنس کے سابق کمانڈر نے اس ملک میں حالیہ بغاوت کو سول حکومت کے بجائے خود فوج کے خلاف قرار دیا ہے۔
اسماعیل حقی پکین "فوج اور سیاست" نامی کتاب کے مصنف نے تسنیم نیوز ایجنسی کو انٹریو دیتے ہوئے حالیہ ترک بغاوت کے بارے میں مختلف سوالوں کا جواب دیا ہے۔
ترک فوج کے ریٹائرڈ جنرل سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ ہفتے کو ہونے والی بغاوت کی کوشش کو آپ کس تناظر میں دیکھتے ہیں تو انہوں نے جواب میں کہا کہ ترکی بغاوت کے پیچھے گولن کا ہاتھ ہونے میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے، اس بغاوت کی کوشش میں ملوث اکثرافراد گرفتار ہوچکے ہیں عنقریب ان تمام افراد کے خلاف قانونی کاروائی کی جائےگی۔
انہوں نے مزید کہا کہ ترک فوج کی اکثریت کا اس بغاوت کی کوشش سے کوئی تعلق نہیں تھا، جیسے ہی حالات خراب ہونےلگے ترک فوج نے واقعے کی مذمت کی۔ فوج نے بغاوت کی حمایت کے بجائے پولیس کے ساتھ بھرپور تعاون کیا یہی وجہ تھی کہ بغاوت کی کوشش فوری طور پر ناکام بنادی گئی۔
اس حادثے کے محرکات کے بارے میں ترکی کے سکیورٹی ماہر کا کہنا تھا کہ فتح اللہ گولن گروپ کی کہانی بہت طویل ہے، جس نے ترک مسلح افواج کے خلاف دشمنوں والی کارروائیاں انجام دی ہیں۔ جیسے' 'بالیویز'' اور''ارگنکان'' گروہوں کی ترک فوج کے خلاف تمام تر سازشیں اسی گروہ کی توسط سے انجام دی گئیں تھیں۔
''فوج اور سیاست '' نامی کتاب کے مصنف کا کہنا تھا: گولن گروہ کئی سال پہلے اپنے افراد کو فوجی ادارے میں داخل کرچکا تھا اور اس کے تقریبا 2000 افراد فوجی اسٹیبلشمنٹ پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ترک فوج نے اس قسم کے تمام عناصرکو جڑسے ختم کرنے کا ارادہ کیا ہے۔ ہم آپ کو یاد دہانی کراتے ہیں کہ پہلی اگست کواعلی فوجی کونسل کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔
حقی کا کہنا تھا کہ اس کونسل کے فرائض یہ تھے کہ گولن گروہ کے رہنما افراد کی شناسائی کرکے معزول یا وقت سے پہلے ہی ریٹائر کردئیے جائیں۔ گولن گروہ کو اس بات کا علم ہوچکا تھا کہ اس اجلاس کا مقصد کیا ہے، وہ سمجھ چکے تھے کہ ان کی چھانٹی ہونے والی ہے۔
انہوں نے مزید کہاکہ اس سے پہلے بھی گولن کےحامی افراد کے خلاف فوجی عدالتوں میں کارروائیاں ہوچکی ہیں، اب بھی ان کے ہی خلاف کارروائی ہونے والی تھی جس کی وجہ سے ان لوگوں نے وقت سے پہلے ہی اس قسم کے بھاری اقدامات کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
ترک فوج کے ریٹائرڈ افسر نے اعتراف کیا کہ اس بغاوت کا اصل مقصد اور ہدف فوج، عوام، پولیس اور فوج کے درمیان فاصلوں میں اضافہ کرکے قوم اور قومی اداروں کی نظروں سے فوج کی اہمیت کو کمزور کرنا تھا۔
پکین حقی نے مزید کہا کہ جب ہم مذکورہ بغاوت کی منصوبہ بندی کو غور سے دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس گروہ کے رہنما اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ ان کے لئے ریاست پرقابو حاصل کرکے حکومت چلانا ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ہم ان علاقوں کا مشاہدہ کرتے ہیں جہاں اس گروہ کے کارندوں نے بمباری کی ہے، وہاں دیکھنے کو ملتا ہے کہ انہوں نے وزیراعظم ہاؤس یا صدارتی محل یا کسی بھی حکومتی اداروں پر حملوں کے بجائے فوجی اورسکیورٹی تنصیبات پر حملے کئے ہیں کیونکہ ان کا مقصد لوگوں کی نظروں میں فوجی کردار کو کمزورکرنا تھا۔ یہ ایسے حالات میں ہے حالیہ مہینوں میں ترک فوج نے ترکی کے جنوب مشرق میں کامیاب آپریشن کرکے لوگوں کے درمیان کافی مقبولیت حاصل کی تھی۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ان کے اہداف میں سے ایک ہدف حکومتی اقتدار اور ملکی خودمختاری کو کمزورکرنا تھا۔
اس فوجی ماہر کا اس بغاوت کےناکامی کے وجوہات کے بارے میں کہنا تھا کہ اگر ملک کے صدر، وزیراعظم اور ملکی سکیورٹی کے ادارے فوری طور پر اتفاق رائے سے میدان میں نہ اترتے تو ابتدائی گھنٹوں میں اس بغاوت پر کنٹرول حاصل کرنا نا ممکن تھا۔ اگرچہ ان اداروں کے درمیان اتفاق دیر سے بھی ہوتا تب بھی بغاوت کو کچل سکتے تھے لیکن کریک ڈاؤن کرنے میں وقت لگتا، نقصانات زیادہ ہوتے، ملکی اقتدار کمزور پڑ جاتی اور بین الاقوامی سطح پر ترکی کاچہرہ مکروہ ہوجاتا۔
پکین حقی نے تاکید کی کہ جب ہم بغاوت کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ ان لوگوں کا مقصد آنے والے دنوں میں ہونے والے فوجی اقدامات کو اس بغاوت کے ذریعے ختم کروانا تھا۔
کیا بغاوت کا اصلی ہدف ملکی خودمختاری کو کمزور کرنا بھی ہوسکتا ہے، کے سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پچھلے سال 25 جولائی سے ترک فوج اور حکومت ملک کے جنوب مشرق میں ایک دہشت گرد گروہ کےخلاف میدان جنگ میں اتر چکے ہیں۔ دوسری طرف ہم گواہ ہیں کہ ترکی حکومت کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی آئی ہے، بالخصوص ہمسایہ ممالک جیسے، روس، شام، عراق اور ایران کے ساتھ تعلقات میں نرمی اور کشیدگی کم کرنا وغیرہ۔ اس تبدیلی کو یہ بغاوت نقصان پہنچا سکتی ہے۔ دراصل ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بغاوت میں مرتکب افراد، ترکی کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو خراب کرنا چاہتے تھے۔
ایک اور سوال کے جواب میں کہ کیا بغاوت اردگان کے حق میں ہو گا؟ کیونکہ ایک طرف اس کا سیاسی حریف کمزور پڑ جائے گا تو دوسری طرف صدر کو قومی نظروں میں عزت ملے گی، کے جواب میں ترک فوج کے سابق جنرل نے کہا کہ اس قسم کے قیاس آرائیوں پر بھی غور کیا جاسکتا ہے۔ یعنی ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ فوجی بغاوت قوم کی نظروں میں فوج کے وقار کو کم کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ جنوب مشرق میں فوجی آپریشن کا فوجی مشن بھی کمزور پڑ سکتا ہے۔
پیکن حقی نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ یہ ایک غیر معمولی بات ہے کہ صدر اردگان نے بغاوت کو کچلنے کے لئے عوام سے سڑکوں پر آنے کی اپیل کی اور عوام نے ان کی آواز پر لبیک کہہ دیا جو صدر کے وقار میں اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر بغاوت کامیاب ہوجاتی تو حکومت اور حاکمیت تباہ و برباد ہوجاتی لیکن اب حکومت کی سیاسی طاقت میں اضافہ ہوگا اور صدر کو عوام میں مقبولیت ملے گی۔
کہا جاتا ہے کہ اردگان کو بغاوت کے بارے میں پہلے سے ہی اطلاع تھی لیکن اس نے جان بوجھ کر کوئی اقدام نہیں کیا، کیا یہ بات درست ہے؟ جواب میں حقی کا کہنا تھا کہ یہ کہنا کہ صدر نے جان بوجھ کر اس مسئلے کو نظر انداز کیا ہے بالکل غلط ہے۔ میں ایک سیاسی اور فوجی ماہر ہونے کے ناطے قطعی طور پر یہ کہہ سکتا ہوں کہ صدر ایسا نہیں کرسکتا ہے، یہ بات سراسرغلط ہے کیونکہ یہ بغاوت حکومت اور فوج کے لیے ایک دھچکا تھا۔ سب سے زیادہ نقصان فوج کو پہنچا ہے۔ میرے خیال میں یہ بغاوت ایک شکست خوردہ دیوانگی تھی۔