ترک امریکہ تعلقات مزید خراب ہونگے/ ٹرمپ آئے دن اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا ہے
سیاسی امور کے ماہر اور ایڈن برگ یونیورسٹی کے پروفیسر کا کہنا ہے کہ انقرہ اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں جن کا مستقبل میں مزید بدتر ہونے کا قوی امکان ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے پروفیسر''جان ہنری پیٹرسن'' نے امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کا حوالہ دیتے ہوئےکہا کہ اس قسم کی پالیسیاں تمام ممالک خاص طور پر مشرق وسطی کے لئے نقصان دہ ہیں۔
میرے خیال میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات ہی مشرق وسطی میں بد امنی پھیلا رہی ہیں۔ یہ بات واضح ہے کہ صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں مشرق وسطی نہیں تھا۔ مثال کے طور پر داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف کارروائی صرف ایک ضرورت کے تحت کی گئی ہے۔
حقیقت میں اوباما حکومت کی خارجہ پالیسوں کی اہم ترجیحات میں ایشیا اور چین تھے اور اس پالیسی کو ایشیا کی ''تبدیلی'' کا نام دیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اورعلاقے میں امریکی حکومت کی طرف سے کی جانے والی اہم سرمایہ کاریاں صرف اور صرف دنیا بالخصوص مشرق وسطی کو نقصان پہنچانے کے لئے کی گئی ہیں۔
پروفیسر نے تسنیم خبررساں ادارے کے نمائندے کے سوالات کے کچھ یوں جوابات دئے:
ترکی میں حالیہ بغاوت کی کوشش کے بعد ترک - امریکہ تعلقات کس کروٹ بدلی ہیں؟ آپ کے خیال میں مستقبل میں بہتری آسکتی ہے؟
دونوں ملکوں کے حالات نہایت کشیدہ ہیں اور مستقبل میں حالات اس سے بھی بدتر ہوںگے۔ رواں مہینے کے آخرمیں جان کیری ترکی کا دورہ کرنے والے ہیں، اس دورے کے بعد کچھ زیادہ حقایق سامنے آئیں گی لیکن ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بغاوت کی کوشش سے پہلے بھی ترک – امریکہ تعلقات مطلوب نہیں تھے اس کی خاص وجہ اردوغان کی طرف سے ملکی جمہوریت کے استحکام کے لئے سیاسی مخالفین کے ساتھ تعاون نہ کرنا ہے۔
اس کے علاوہ داعش کے بارے میں پائے جانے والے اختلافات ایک اور وجہ ہوسکتی ہے۔
شواہد اور علائم سے معلوم ہوتا ہے کہ حالیہ بغاوت کے پیچھے امریکہ کا ہاتھ ہے،اس بارے میں اردوغان کا کیا رد عمل ہوسکتا ہے؟
یاد رہے کہ جنوبی ترکی میں ''اینجرلیک'' ہوائی اڈہ عراق اور شام میں امریکی فضائی حملوں کے لئے کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ اوباما حکومت نے کہا ہے کہ ترک حکومت ''گولن'' کا حالیہ بغاوت میں ملوث ہونے کا ٹھوس ثبوت پیش کرے۔
حقیقت میں حالیہ بغاوت کے پیچھے امریکی تعاون کے شبہے نے اردغان کو سخت پریشانی میں ڈال دیا ہے۔
اعداد و شمار سے واضح ہوجاتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے مشرق وسطی کے لئے معین بجٹ میں مزید اضافہ کیا جارہا ہے، مشرق وسطی میں موجود تمام دھڑوں کے پاس امریکہ سے ہی خریدا ہوا اسلحہ پایا جاتا ہے تو یوں کہنا کہ امریکہ ہی مشرق وسطی میں جنگ کو ہوا دے رہا ہے، درست نہیں ہوگا؟
میرے خیال میں قطعی طور پر یہ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات ہی مشرق وسطی میں بدامنی پھیلا رہی ہیں۔
لیکن ہم قطعی طور پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ صدر اوباما کی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں مشرق وسطی نہیں تھا، مثال کے طور پر مشرق وسطی میں داعش جیسی دہشت گرد تنظیم کے خلاف کارروائی صرف ایک ضرورت کے تحت کی گئی ہے۔
حقیقت میں اوباما حکومت کی خارجہ پالیسوں کی اہم ترجیحات میں ایشیا اور چین تھے اور اس پالیسی کو "ایشیا کی تبدیلی" کا نام دیا گیا تھا۔
دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ امریکی خارجہ پالیسی کی ترجیحات اورعلاقے میں امریکی حکومت کی طرف سے کی جانے والی اہم سرمایہ کاریاں مشرق وسطی میں جنگ کو ہوا دینے کےلئے کی گئی ہیں۔
یمنی شہریوں پر سعودی عرب کی سربراہی میں ہونے والے حملوں کو اب 500 دنوں سے بھی زائد کا عرصہ ہوگیا ہے اس کے باوجود اقوام متحدہ اور امریکہ کی طرف سے کوئی مناسب رد عمل سامنے نہیں آرہا ہے، اس کی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں؟
میں اتنا کہہ سکتا ہوں کہ یہ سب کچھ ایک شرارت کے طور پرکیا جارہا ہے اور اب یہ شرارت ان کی خارجہ پالیسی کا حصہ بن چکی ہے اس میں مسائل کے حل کی کوئی خاص صورت حال نظر نہیں آرہی ہے۔
حالیہ مہینوں کے واقعات کو مد نظر رکھتے ہوئے امریکی انتخابات میں کس کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں؟
کلنٹن نے اچھے کنفرنس کا انعقاد کیا ہے لیکن دوسری طرف ہم دیکھتے آرہے ہیں کہ ٹرمپ آئے دن خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی مارتا آرہا ہے۔ پھر بھی ''یوم مزدور'' سے پہلے کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔
یوم مزدور کے بعد ہی امریکی عوام کھل کر انتخابات کی مہم جوئی میں حصہ لے گی تب جا کر کچھ کہہ سکیں گے کہ کون جیتنے والا ہے اور کون ہارے گا۔
میرے خیال میں تو کلنٹن نہایت آسانی کے ساتھ انتخابات میں کامیاب ہوجائے گی۔