بلتت قلعہ؛ ہنزہ کے پہاڑوں پر واقع ایک تاریخی ورثہ


آٹھ سو سال پرانا پرشکوہ بلتت قلعہ آج بھی سلسلہ میر ہنزہ کی عظمتوں کا گواہ ہے۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، پاکستان کے علاقے گلگت بلتستان کی وادی ہنزہ کے بلتت قلعے کے 62 دروازے ہیں۔

1945 تک یہ قلعہ ہنزہ کے حکمرانوں کے زیر استعمال رہا تھا۔ بعد میں 1990 میں ہنزہ کے آخری حکمران کے بیٹے نے قلعے کو باقاعدہ طور پر بلتت ہیرٹیج ٹرسٹ کے حوالے کر دیا۔

اس قلعے کی تعمیر تبت کی طرز تعمیر سے مشابہت رکھتی ہے۔ اس کی تعمیر سے متشابہ ایک قلعہ پوٹالہ، تبت کے شہر لاسا میں بھی ہے۔

قلعے میں ہنزہ کے میر اور رانی کے شاہی لباس آج بھی محفوظ ہیں۔

مقامی تاریخ دانوں کے مطابق، پندرہویں صدی میں ہنزہ کے حکمران نے بلتستان جسے تاریخی طور پر چھوٹا تبت بھی کہا جاتا ہے، وہاں کی شہزادی سے شادی کی تھی اور جہیز کے طور پر اس کے ساتھ آنے والے کاریگروں نے اس کی تعمیرنو کی تھی۔

قلعے کے ایک کمرے سے وادی ہنزہ کے دلکش مناظر کا نظارہ کیا جا سکتا ہے۔

قلعے میں اب بھی ہر ماہ چاند کی چودہویں تاریخ کو سیاح ایک معقول رقم دے کر شاہی دسترخوان پر روایتی کھانے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

دی گئے تصاویر میں دکھنے والے برتن، پتھر کو مارخور کے سینگ کی مدد سے تراش کر بنایا گیا ہے۔

ایک طرف جہاں ان برتنوں کو کھانا پکانے کی غرض سے گرم کرنے میں کئی گھنٹے درکار ہوتے ہیں وہیں ایک مرتبہ پک جانے کے بعد ان برتنوں میں کھانا کئی گھنٹوں تک گرم رہتا ہے۔

 1990 میں آغا خان ٹرسٹ نے امریکہ اور ناروے کی حکومت کے تعاون سے اس کی بحالی کا کام شروع کیا جو 1996 میں 6 کروڑ روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ مقامی لوگ آج بھی اس قلعے کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور اس پر بہت فخر کرتے ہیں۔

اس قلعے کو 2004 میں اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو سے بحالی کا بہترین ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔

(تصاویر بشکریہ: عارف مشتاق)