سعودی اتحاد میں شمولت سے راحیل شریف کی حیثیت ختم ہوجائیگی
چیئرمین سچ ٹی وی اور رکن اسلامی نظریاتی کونسل نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف اپنی نیک نامی کی حفاظت کریں، کیونکہ سعودی اتحاد کی سربراہی قبول کرنے کے بعد ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی۔
علامہ سید افتخار حسین نقوی کا شمار پاکستان کی معروف مذہبی شخصیات میں ہوتا ہے، اپنے دور میں ہونیوالی مکتب تشیع کی تمام سرگرمیوں میں ہراول دستے کے طور پر شامل رہے۔ ایک عرصے تک تحریک جعفریہ پنجاب کے صدر رہے، اسکے بعد آپکو تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری کے طور پر چن لیا گیا۔ ضلع میانوالی میں قائم مدرسہ امام خمینی (رہ) کے انچارج ہیں۔ علامہ افتخار نقوی سچ ٹی وی کے چیئرمین ہونے کے علاوہ امام خمینی ٹرسٹ کے بھی سربراہ ہیں۔ وہ اسلامی نظریاتی کونسل اور مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے رکن بھی رہ چکے ہیں، تسنیم نیوز نے علامہ افتخار نقوی کے ساتھ ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال قارئین کے پیش خدمت ہے۔
تسنیم نیوز: پاراچنار میں پیش آنے والے ناخوشگوار واقعہ پر کیا کہیں گے؟
علامہ افتخار نقوی: پاراچنار میں رونما ہونے والے حالیہ سانحہ پر بہت دکھ ہوا، پاکستان کے دشمن متحرک ہیں، ہماری پاک فوج بڑی سنجیدگی سے ان دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں مشغول ہے، پاراچنار میں دہشت گردی کا واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے، افغانستان کے سرحدی علاقوں کے ساتھ ہماری جتنی بھی ایجنسیاں ہیں، وہاں اس قسم کے دھماکے اور حملے روزمرہ کا معمول بن چکا ہے، الحمدللہ کافی عرصہ کنٹرول کیا گیا، لیکن دشمن آرام سے نہیں بیٹھا، دشمن تلاش میں ہوتا ہے، جہاں اسے موقع ملتا ہے، وہ فوراً کارروائی کرتا ہے، ہماری حکومت اور ایجنسیوں کی ذمہ داری ہے کہ دہشت گردوں کے پشتیبانی کرنے والی شخصیات اور سہولت کاروں پر نظر رکھیں، جہاں ان دہشت گردوں کو پرورش دی جاتی ہے، ان پر ہاتھ ڈالیں، اس میں کسی قسم کی نرمی نہیں کرنی چاہیے، چونکہ آج یہ سانحہ پاراچنار میں رونما ہوا کل کہیں اور ہو سکتا ہے۔ پاراچنار اور دیگر ایجنسیاں ہر وقت دشمن کے نشانے پر ہیں۔ اس حوالے سے سیکورٹی کے اداروں کو زیادہ چوکنا رہنا چاہئے۔ اور خاص کر ایسی جگہیں جہاں عوامی اجتماع ہوتا ہے۔ سبزی منڈی ظاہر ہے، صبح وہاں لوگ آتے ہیں، جیسا کہ بتایا جا رہا ہے کہ وہاں باقاعدہ پہلے بم نصب کیا گیا اور جب وہاں لوگ اکٹھے ہوئے تو دھماکہ کر دیا گیا، اس لئے ایجنسیوں کی انتظامیہ اور پولیٹیکل ایجنٹ کو چاہیے کہ زیادہ متحرک ہوں۔ ان دہشت گردوں کا پتہ لگانا مشکل نہیں ہے۔ وہاں کے بڑے بڑے لوگ پتہ لگا سکتے ہیں۔
تسنیم نیوز: خطہ پاراچنار پاک افغان بارڈر پر واقع ہے، جہاں سے افغانستان کا علاقہ ننگرہار قریب ہے، جہاں داعش نے افغان سرزمین پر ڈیرے ڈال رکھے ہیں، اور گزشتہ روز وہاں کئی دہشت گردانہ کارروائیاں بھی کی گئیں ہیں، کیا آپ اس دھماکے کو داعش کی انہی گھناؤنی سرگرمیوں کی کڑی قرار دیتے ہیں؟
علامہ افتخار نقوی: پاکستان کے بڑے دشمنوں میں امریکہ، انڈیا اور اسرائیل سرفہرست ہیں، انہوں نے تہیہ کر رکھا ہے کہ پاکستان کو غیر مستحکم بنانا ہے، اسے ایک ناکام ریاست قرار دینا ہے، تو اس کام کو انجام دینے کے لئے وہ اپنے ایجنٹس کو مختلف ناموں سے بھیجتے ہیں، کل تک وہ پاکستانی طالبان تھے، آج وہ داعش کے نام سے کارروائیاں کر رہے ہیں، ان ممالک نے انہیں پال رکھا ہے، کنٹرول روم سے انہیں احکامات جاری ہوتے ہیں، کہ اب فلاں جگہ حملہ آور ہونا ہے، کبھی یونیورسٹی تو کبھی سکول اور کبھی نہتے عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے، اس تناظر میں پاک فوج کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ دشمن کو وار کرنے کا موقع نہیں ملنا چاہیے، پاکستان کا سرحدی علاقہ جو افغانستان سے متصل ہے، یہاں دشمن کی پہنچ بہت آسان ہے، پاک فوج جو پہلے ہی جانفشانی کے ساتھ اپنی ذمہ داریاں ادا کر رہی ہے، قربانیاں دی جارہی ہیں، اس واقعہ کے بعد ان کی ذمہ داریوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
دوسری جانب وفاقی حکومت کو بھی چاہیے کہ کھوج لگائے کہ ان واقعات کے تانے بانے کہاں مل رہے ہیں، وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے پاراچنار میں یہ گھناؤنی کارروائی کی ہے۔ کیا یہ عناصر ایسے واقعات کے ذریعے ملک میں مذہبی منافرت کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ ہمارے نزیک یہ پاکستان اور اسلام دشمن لوگ ہیں جو یہ کارروائی کرتے ہیں، یہ لوگ پلے بڑھے اسی ملک میں ہیں لیکن وہ دشمن کے ایجنٹ ہیں، اسی ملک کا کھا رہے ہیں اور اسی ملک کو برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔
تسنیم نیوز: حلب میں داعشی عناصر کو شرمناک شکست ہوئی، کیا اب یہ افغانستان میں بیٹھ کر کوئی نیا محاذ کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں؟
علامہ افتخار نقوی: ظاہر ہے جب انہوں نے وہاں محاذ کھولنا تھا تو بڑے بڑے کمانڈروں کو یہاں سے وہاں منتقل کیا، جن میں چیچن بھی شامل تھے، اب جب انہیں حلب اور موصل میں شکست کھانی پڑی ہے، تو اب وہ جنگ کو اس خطے میں منتقل کریں گے، دکھائی دے رہا ہے کہ دہشت گرد عناصر کا اگلا مرکز پھر افغانستان ہے۔ چونکہ افغانستان کے ساتھ دو اہم ملک ہیں، جن پر دشمن نے نظریں گھاڑی ہوئی ہیں، ایک ایران اور دوسرا پاکستان، دشمن چاہتا ہے کہ ان دو ممالک کو بےامن کریں۔ ایسے میں افغان حکومت کی ذمہ داریاں بھی بڑھ جاتی ہیں، اگر وہ خطے کو امن دینا چاہتے ہیں تو بڑی طاقتوں کے آلہ کار نہ بنیں۔
تسنیم نیوز: دہشت گردی کے خلاف نام نہاد اتحاد کا اعلان ہوا، چند غیرمصدقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ سابق آرمی چیف اس کی سربراہی کریں گے، اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟
علامہ افتخار نقوی: ملک کے تمام سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں نے ایسے اقدام کو یا ایسی پیشکش کو قبول کرنے کی مذمت کی ہے اور راحیل شریف سے یہ کہا گیا ہے کہ وہ اپنی نیک نامی کی حفاظت کریں، چونکہ اس اقدام کے بعد ان کی حیثیت ختم ہو جائے گی، ہاں اگر ایک ایسا اتحاد تشکیل دیا جاتا ہے جو اسلام دشمن طاقتوں کے خلاف ہو، اسرائیل کے خلاف ہوتا، فلسطین کی آزادی کے لئے ہوتا، کشمیر اور مظلوم مسلمانوں کے لئے ہوتا تو پھر ٹھیک تھا۔