آرمی چیف کا حالیہ دورہ ایران خوش آئند/ دونوں ممالک کے مابین اعتماد سازی کی اشد ضرورت تھی
پاکستان کے سینئر صحافی اور تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ پاک آرمی چیف کا حالیہ دورہ ایران بقارڈر مینجمنٹ، اعتمادسازی، سعودی اتحاد اور افغانستان میں داعش کے اثر و رسوخ پر قابو پانے کے حوالے سے نہایت اہم قرار دیا جارہا ہے۔
محمد طاہر خان سینئر صحافی اور تجزیہ نگار ہیں، نیوز نیٹ انٹرنیشنل (این این آئی ) کے ساتھ بطور ایڈیٹر وابستہ ہیں۔ تسنیم نیوز کے ساتھ آرمی چیف کے حالیہ دورہ ایران کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میری نظر میں آرمی چیف کے حالیہ دورہ ایران کی اہمیت اس وجہ سے بھی بہت زیادہ ہے کہ پاکستان اور ایران کے مابین تعلقات میں کچھ مسائل اور مشکلات کا سامنا ہے۔ دونوں ممالک کے مابین موجود بداعتمادی کے سلسلہ میں بحث و مباحثہ کی ضرورت تھی، مل بیٹھنے اور ایک دوسرے کے خدشات کو دور کرنے کی ضرورت تھی، اہم ایشوز پر بات ہوئی، مثلا ایران کو سرحدی علاقوں میں ہونے والے حملوں پر شکایت تھی، ان کی نظر میں حملوں میں ملوث لوگ اس طرف سے آتے جاتے ہیں۔ بارڈر مینجمنٹ پر اس دورے میں بات چیت ہوئی ہے۔
علاوہ ازیں سعودی عرب میں بننے والے اسلامی اتحاد جسے سعودی عرب کی طرف سے کہا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف بنا ہے، شاید دہشت گردی کے خلاف بھی ہو سکتا ہے لیکن کچھ لوگوں کی نظر میں ان کی توجہ ایران کی طرف ہے، پاکستان کے فوجی سربراہ اس اتحاد میں شامل ہوئے اس پر بھی ایران کے تحفظات تھے۔
پاکستان اور ایران کا کردار اس خطے میں نہایت اہم ہے، افغانستان کو ہی لیجئے جو دونوں ممالک کے لئے تشویش کا باعث اس لئے بھی ہے کہ وہاں جنگ طوالت اختیار کر گئی ہے، اگر آپ کو یاد ہو تو گزشتہ دنوں پاکستان اور ایران کے مابین افغانستان کے ہی موضوع پر مذاکرات ہوئے ہیں۔ ایران کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ افغانستان کے مسئلے کا حل اس خطے میں تلاش کیا جائے۔ اب اسی سوچ کو، ایران والی سوچ کو، جسے پہلے اتنی تقویت حاصل نہیں تھی، اب روس، چین، ایران، سنٹرل ایشیائی ممالک اور حتیٰ کے انڈیا بھی اسی سوچ پر عمل پیرا نظر آتے ہیں۔ ان تمام ممالک کا انتہائی اہم اور موثر کردار سامنے آرہا ہے۔ یہ اتحاد پہلے تین ممالک سے شروع ہوا، پھر گیارہ ممالک تک پہنچ گیا۔
ایران اور پاکستان خطے کے ان ممالک میں سے ہیں جو افغانستان کے حالات سے براہ راست متاثر ہوتے ہیں، تو یہ دورہ اس حوالے سے بہت اہم تھا، چونکہ وہاں جنگ طویل ہوتی جارہی ہے، امریکیوں نے کوئی ٹائم فریم بھی نہیں دیا کہ انہوں نے وہاں سے جانا ہے یا نہیں جانا، پھر داعش کا عنصر بھی اہم ہے، سب ممالک کے لئے داعش اس وقت ایک خطرہ ہے۔ مشترکہ پریس کانفرنس میں اس کا ذکر بھی کیا گیا ہے۔ تو ان تمام معاملات پر مشترکہ لائحہ عمل اور تبادلہ خیال کے لئے اس دورے کی اہمیت ہے جبکہ سیکیورٹی کے معاملات ہوں تو فوج کا رول ہوتا ہے، پاکستان میں فوج کا اہم رول ہے، تو اس دورے میں بارڈر مینجمنٹ اور دیگر سیکیورٹی کے معاملات پر بداعتمادی کم ہوئی ہے، داعش اور دیگر خدشات کے تناظر میں بھی یہ دورہ بہت اہم تھا، افغانستان بھی سیکیورٹی ایشو ہے، اس حوالے سے بھی دورہ اہم تھا۔
ایک تاثر پایا جاتا ہے کہ بھارت نے پاک ایران تعلقات پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، اس حوالے سے یہ کہوں گا کہ بھارت ایک بڑا ملک ہے، اس کا ایک اہم کردار ہے، پاکستان ابھی اس سے تعلقات چاہتا ہے، چابہار کے پراجیکٹ میں ایران، افغانستا ن اور بھارت مشترکہ طور پر کام کر رہے ہیں۔
پاک ایران تجارت اشد ضروری ہے، ایران ہمارا ہمسایہ ہے، اگر پاک ایران تجارت میں تیزی آئے تو پاکستان اور ایران دونوں ممالک کے لئے اس میں فائدہ ہے۔ ایران کے ساتھ سرحدی علاقوں میں رہنے والوں کا تو اسی تجارت پر انحصار ہے۔ آج دنیا میں اقتصادیات کو اہمیت اور فوقیت دی جاتی ہے۔ چین کو دیکھ لیں، ون بیلٹ ون روڈ کا فوکس تجارت ہے۔ پاکستان اور ایران کو بھی اسی طرح ایک دوسرے کے قریب آنا چاہئے، پڑوسیوں کے درمیان تجارت بہت ہی زیادہ سود مند ہوتی ہے، ایران سے آنے والا مال سستا ہوگا، بارڈر پر سیکیورٹی کو بڑھانا چاہیے تاکہ تجارت پھلے پھولے۔