ہنزہ: موسموں کے ساتھ رنگ بدلتی جنت نظیر عطا آباد جھیل


ہنزہ: موسموں کے ساتھ رنگ بدلتی جنت نظیر عطا آباد جھیل

پاکستان کی حیسن ترین وادی ہنزہ میں حادثاتی طور پر وجود میں آنے والی ”عطا آباد جھیل” سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں سے ایک بن چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیاحوں کی بڑی تعداد نے اس جنت نظیر مقام کے اطراف ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔

خبر رساں ادارے تسنیم کے مطابق گلگت سے 120 کلومیٹر کے فاصلے پر وادی گوجل میں واقع عطا آباد جھیل اپنے نیلے، شفاف اور میٹھے پانی کی وجہ سے بے حد مقبول ہے جبکہ اس کے ارد گرد موجود بلند چوٹیاں اس کی خوبصورتی میں مزید اضافہ کردیتی ہیں، دیکھنے والے کو یہ منظر کسی جنت سے کم نہیں لگتا۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے سر بفلک پہاڑوں کے دامن میں کسی نے صاف شفاف پانی کا تالاب بنا دیا ہو۔

یہاں آنے والے اپنا  شمار خوش نصیبوں میں کرتے ہیں کیونکہ اس منفرد اور انوکھی جھیل تک پہنچنا  اتنا آسان نہیں۔

یہاں تک پہنچنے کے لیے کئی گھنٹوں کی پرخطر اور کٹھن مسافت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کر آپ اپنی منزل مقصود تک پہنچ پاتے ہیں۔

عطا آباد جھیل کی تاریخ کچھ زیادہ پرانی نہیں، 2010 میں ”عطا آباد جھیل” ایک قدرتی آفت کے نتیجے میں وجود میں آئی، اس سے قبل اس مقام پر ”عطا آباد” گاؤں اور بہتا ہوا دریائے ہنزہ ہوا کرتا تھا لیکن چار جنوری 2010  کو اس گاؤں کو خوفناک لینڈ سلائیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا جس کے باعث تقریبا چار ماہ تک دریا ئے ہنزہ کا بہاؤ رکا رہا اور یہ بدقسمت گاؤں ایک بڑی جھیل کی شکل اختیار کر گیا۔

ابتدا میں نہ صرف مقامی افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ شاہراہ قراقرم بھی متاثر ہوئی جس کے باعث خنجراب پاس تک سڑک کے ذریعے آمدورفت بھی متاثرہوئی لیکن اب یہ جھیل ایک بہترین سیاحتی مقام بن چکی ہے۔

اس کا شمار پاکستان کی خوبصورت ترین جھیلوں میں کیا جاتا ہے۔ یہ اپنے نیلے رنگ کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی جانب کھینچ لاتی ہے لیکن اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا رنگ ہمیشہ نیلا نہیں رہتا بلکہ موسم کے حساب سے بدلتا ہے جس کی وجہ آسمان کے عکس کا اس پر مکمل طور پرغالب رہنا ہے۔

یہ جھیل موسم کے لحاظ سے  اپنا رنگ بھی بدل لیتی ہے، اگر آسمان پر سیاہ بادل ہوں تو جھیل کا رنگ بھی ایسا ہی ہوجاتا ہے۔

یہاں آنے والے سیاح صرف جھیل کا نظارہ کرنے نہیں آتے بلکہ ان کا مقصد کشتی میں بیٹھ کرجھیل کے ایک کنارے سے دوسرے کنارے تک جانے کا مزہ  لینا بھی ہوتا ہے۔ اسے پار کرنے میں کم ازکم ایک گھنٹے کا وقت درکار ہوتا ہے اور اس ایک گھنٹے میں جھیل کے ارد گرد پھیلے مناظر سے لطف اندوز ہونے کا بھر پور موقع ملتا ہے جبکہ پانی کے دونوں اطراف اونچے اونچے پہاڑ کسی منفرد دنیا کا منظر پیش کر رہے  ہوتے ہیں۔

یہ جھیل کسی سیدھی سڑک کی طرح نہیں ہے بلکہ اس میں کئی موڑ بھی آتے ہیں اور ہر موڑ پر ایک الگ اور خوبصورت منظرآپ کا منتظر ہوتا ہے جبکہ اس کے عقب میں ایک پراسرار خاموشی طاری ہوتی ہے جس کو محسوس کرنے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔

جھیل کے درمیان میں پہنچ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہر طرف سکون ہی سکون ہے۔

یہ جھیل نو کلو میٹر کے رقبے پر محیط ہے جبکہ چینی فن تعمیر کے ایک عظیم شاہکار”عطا آباد ٹنل” نے اس کی اہمیت میں  مزید اضافہ کردیا ہے کیونکہ سیاح جھیل کے ساتھ  پہاڑوں کا سینہ چیرتی سرنگ میں بھی خاصی دلچسپی لیتے ہیں جسے ایک سال پہلے ہی تعمیر کیا گیا ہے۔

اس کی سیر کے لیے سب سے اچھا وقت موسم گرما ہے کیونکہ موسم سرما میں سردی اور برفباری کے باعث نہ صرف یہاں آنے والے راستے بند ہوجاتے ہیں بلکہ جھیل پر بھی برف کی تہہ جم جاتی ہے۔

اس جھیل کے دیوانے ہر سال یہاں آتے ہیں اور قدرتی حسن سے لطف اندوز ہوتے ہیں، یہاں آنے والے کہتے ہیں کہ جس نے یہ دلکش نظارہ نہیں کیا اس نے پاکستان میں کچھ نہیں دیکھا، کم از کم ایک مرتبہ تو سیاحوں کو اس جھیل کا نظارہ لازمی کرنا چاہیے۔

اہم ترین سیاحت خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری