اردو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان کیوں نہیں؟
اکیسویں صدی کے آغاز کے بعد چار ممالک نے اپنی اپنی زبانوں کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبانیں بنانے کی جدوجہد شروع کی۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق،ان میں بنگلہ دیش، بھارت، پرتگال اور ترکی شامل ہیں۔ اپریل 2009ء میں بنگلہ دیش کی وزیراعظم شیخ حسینہ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سامنے دلائل دیئے کہ ساتویں بڑی زبان ہونے کی وجہ سے بنگالی زبان کو بھی اقوام متحدہ کی سرکاری زبانوں میں شامل کیا جائے۔ اس بات کے حق میں بھارتی ریاست مغربی بنگال کی اسمبلی نے دسمبر میں ایک متفقہ قرارداد پاس کی جبکہ آسام اور تری پورہ کی ریاستوں نے بھی اس دلیل کو سپورٹ کیا۔ بھارت کی وزارتِ خارجہ کی طرف سے 2009ء میں جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق بھارتی حکومت ہندی کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بنانے کے لئے سرگرمی سے کام کررہی ہے۔ اس سے قبل 2007ء میں یہ اطلاعات آئیں کہ بھارتی حکومت ہندی کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بنانے کے لئے فوری طور پر سفارتی کوششیں کرے گی۔ اُن کے دعوے کے مطابق ہندی زبان دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے یعنی ہندی بولنے والوں کی تعداد تقرےباً 500 ملین یا پچاس کروڑ ہے۔ پرتگالی زبان بولنے والوں نے پرتگالی کے حق میں وکالت شروع کی کہ دنیا کی چھٹی بڑی زبان ہونے اور چار براعظموں میں بولے جانے کے باعث پرتگالی کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان بنایا جائے۔
اس کے علاوہ 2008ء میں پرتگالی صدر نے اعلان کیا کہ جن ممالک میں پرتگالی بولی جاتی ہے اُن میں سے آٹھ ممالک کے سربراہ پرتگالی کو اپنے اپنے ملکوں میں سرکاری زبان بنانے کے لئے ضروری اقدامات پر متفق ہو گئے ہیں۔ ترکی کے اُس وقت کے وزیراعظم اور موجودہ صدر رجب طیب اردگان نے ستمبر 2011ء میں سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملاقات کی اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ترک زبان کو اقوام متحدہ کی سرکاری زبان دیکھنا چاہتے ہیں۔ ترکی زبان کا خاندان دیگر کئی ممالک کی زبانوں کے خاندانوں سے مماثلت رکھتا ہے جن میں ایران، آذربائیجان، ازبکستان، قازقستان اور کرغیزستان شامل ہیں۔ ان ممالک میں اکثر لوگوں کو ترک زبان بولنے یا سمجھنے میں دشواری پیش نہیں آتی۔ مذکورہ پس منظر کے بعد اس پر غور کیا جاسکتا ہے کہ اردو کو بھی اقوام متحدہ کی زیر تجویز نئی سرکاری زبانوں میں شامل کیا جائے۔ اردو پاکستان کے 200 ملین یا بیس کروڑ لوگوں کی قومی زبان ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت اور برصغیر کے دوسرے ممالک کے کروڑوں لوگوں کی زبان بھی ہے۔ اردو کا تعلق افغانستان اور وسطی ایشیاء سے بھی جڑتا ہے۔ یورپ، امریکہ، چین، روس، کینیڈا، آسٹریلیا، ایران، ترکی اور عرب ممالک میں اردو زبان بولی اور سمجھی جاتی ہے۔اس کا ثبوت ان ممالک کے میڈیا ہاﺅسز ہیں۔ دنیا بھر کے تقرےباً ہر میڈیا ہاﺅس سے اردو زبان کے پروگرام خصوصی طور پر نشر ہوتے ہیں۔ بیشمار ممالک میں اردو کے اخبارات اور رسائل باقاعدگی سے شائع ہو رہے ہیں۔ بھارت کی ہندی زبان کے حوالے سے سفارتکاری میں ایک یہ چالاکی بھی شامل ہے کہ وہ اردو کو ہندی ہی ظاہر کرتے ہیں۔
اس کی مثال مغرب میں پڑھائے جانے والے اردو یا ہندی کے سلیبس ہیں۔ اگر دنیا بھر میں اردو اور ہندی کو علیحدہ علیحدہ زبانوں کی پہچان دی جائے تو ہندی بولنے والوں کی تعداد اُن کے دعوے سے کم ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ اردو کا رسم الخط ہندی اور بنگالی کی نسبت آسان رسم الخط ہے۔ برصغیر کے باشندے دنیا بھر میں جہاں جہاں بستے ہیں ان میں باہمی رابطے کی زبان ہندی اور بنگالی کی بجائے انگریزی کے بعد کسی حد تک اردو ہی ہے۔ پاکستان اپنے سفارتخانوں کے ذریعے اُن کے متعلقہ ممالک میں اردو کی جان پہچان کے حوالے سے ایک سروے کروا سکتا ہے جس کی رپورٹ اقوام متحدہ میں اردو کو سرکاری زبان بنانے کے لئے مددگار دستاویز ثابت ہوگی۔ اردو کی مستقبل میں بین الاقوامی حیثیت کے بارے میں ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ سی پیک جن جن ممالک کے زیراستعمال آئے گی وہاں اردو بھی پہنچے گی۔ اگر عربی، ترکی، فارسی اور ہندی، اردو زبان کی جڑوں میں شامل ہیں تو پھر ان زبانوں کے ساتھ اردو کو بھی مستقبل میں اقوام متحدہ کی سرکاری زبان ہونا چاہئے۔