اردو کو فوری طور پر دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے: علامہ ساجد نقوی
شیعہ علما کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی نے کہاہے کہ آزاد خارجہ پالیسی اور قومی زبان کی ترویج ہی خود مختار قوموں کی شناخت ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق، شیعہ علما کونسل پاکستان کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کو3سال سے زائد عرصہ گزرگیا لیکن اردو زبان کے بطور دفتری اور سرکاری زبان کے فیصلے پر عملدرآمد نہ ہوسکا۔
علامہ ساجد نقوی نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو فوری طور پر دفتری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ زندہ اور خود مختار قوموں کی شناخت قومی زبان ہوتی ہے، حکمران آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کا اظہار کرتے ہیں مگر یہ ترجیحات میں شامل نہیں، انہوں نے کہا کہ کشکول کی بجائے خود انحصاری پالیسی پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
علامہ سید ساجد علی نقوی نے کہاکہ سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے ستمبر 2015ء میں واضح اور بڑا فیصلہ آچکا جو پوری قوم کی ترجمانی کرتاہے مگر گزشتہ حکومت نے اس پر عملدرآمد کیا اور نہ ہی نئے پاکستان کے نعرے کے ساتھ آنیوالی حکومت نے ابھی تک اس طرف توجہ دی۔
علامہ ساجد نقوی کا کہنا تھا کہ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے چند روز قبل خود کہاکہ قومی زبان اتحاد کی ضامن ہوتی ہے، ہم اس کی بھرپور تائید کرتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ارباب اختیار سے مطالبہ کرتے ہیں کہ قومی زبان اردو کو اس کا اصل حق اور درجہ دے کر سرکاری خط و کتابت، قانون سازی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں اسے رائج کیا جائے۔
انہوں نے سپریم کورٹ آف پاکستان کے فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ معزز عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین کا اطلاق ہم سب کا فرض ہے، آئین میں درج ہے کہ 15سال کے اندر انگریزی کی جگہ اردو کو سرکاری اور دفتری زبان کے طور پر رائج کیا جائے گا، آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت اردو کو فوری طور پر دفتری زبان کے طور پر فوری طور پر نافذ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی سطح پر مقابلے کے امتحانات میں قومی زبان استعمال کی جائے، قومی زبان کے رسم الخط میں یکسانیت کیلئے حکومتیں ہم آہنگی پیدا کریں، تین ماہ کے اندر حکومتیں قوانین کا اردو زبان میں ترجمہ کریں۔ عدالتی مقدمات میں محکمے اپنے جوابات ممکنہ حد تک اردو میں پیش کریں، عوامی مفاد سے متعلق عدالتی فیصلوں کو بھی اردو میں ترجمہ کیاجائے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ یو اے ای ولی عہد کے دورہ پاکستان کے حوالے سے مختلف قیاس آرائیاں بھی ہوئیں اور کسی حد تک اس وقت تقویت ملی جب خود حکومتی ترجمانوں کی جانب سے دورے پر مختلف دورانیوں کا اظہار کیا، یہ بات توجہ طلب ہےاس لئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے باوجود تلور ملور کا شکار جاری رہا، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات پر سختی سے عمل کر نا ہو گا۔
انہوں نے کہاآزاد قومیں اپنی آزاد و خود مختار خارجہ پالیسی سے نہ صرف پہچانی جاتی ہیں بلکہ ترقی پاتی ہیں، ہمیں کشکول کی بجائے خود انحصاری کی جانب بڑھنے کےلئے عملی اقدامات اٹھانا ہونگے۔