غرور اور تکبر کا انجام
قارون بن یصْہُرَحضرت موسی علیہ السلام کے دور کے مشہور افراد میں سے تھا جس کا نام قرآن میں چار مقامات پر آیا ہے۔
خبررساں ادارہ تسنیم: قارون حضرت موسی علیہ السلام کاچچازاد بھائی تھا اور توریت کا حافظ تھا۔ اللہ تعالی نے قارون کواتنا مال و دولت دیا تھا کہ اس کے مقابلے میں کوئی نہیں تھا۔ بے شمار مال و دولت دیکھ کراس کے حالت بدل گئی اور سامری کی طرح حضرت موسی علیہ السلام کا دشمن بن گیا۔
قارون نے حضرت موسی علیہ السلام کی نصحتوں کے برخلاف عمل کرنا شروع کیا اور غربیوں، یتیموں پر ظلم کرنا اس کا مشغلہ بن چکا تھا وہ لوگوں پر ظلم کیا کرتا اپنی دولت عش وعشرت میں خرچ کرتا تھا۔ اس نے اپنے لئے نہایت شاندار اور بہت عمدہ محل بنایا اور محل کے در و دیوار کو سونے اور مختلف قسم کے جواہرات سے مزین کیا حتی کہ اپنے گھوڑوں اور اونٹوں کو سونے اور جواہرات سے مزین کیا قارون کے پاس سینکڑوں غلام اورکنیزیں تھیں۔
جب بنی اسرائیل کے بزرگوں نے دیکھا قارون غلط راستے پر گامزن ہے تو انہوں نے اسےنصیحت کرنے کی کوشش کی اورکہا قارون یاد رکھو دنیا نے کسی کے ساتھ وفا نہیں کی ہے، یہ مال و دولت چند دنوں کے لئے ہے۔ بنی اسرائیل کے بزرگوں نے کہا: قارون! تم نے اتنا مال کس لیے ذخیرہ کررکھا ہے؟ کیوں لوگوں پر اتنے ظلم ڈھاتے ہو؟ لوگوں کا حق کیوں پامال کرتےہو؟ غریبوں اورناداروں کی کیوں مدد نہیں کرتے؟ اللہ سے ڈرو، اللہ تعالی دنیا پرستوں کو پسند نہیں کرتاہے، کیاتمہیں معلوم نہیں ہے کہ مال دولت ایک سائے کی مانند ناپائیدار اورجلد ختم ہونے والی چیزہے۔ قارون نے غرور و تکبر میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ کسی کوحق نہیں پہنچتا مجھے نصیحت کرے۔ (قصہ ھای قرآن ص222)
قارون حب دنیا میں اس قدرغرق ہوچکا تھا اس کو اپنے سوا کوئی نظرہی نہیں آتاتھا جس کی وجہ سے لوگوں کی نصیحت کا کوئی اثر ہی نہیں ہوتا تھا، وہ ہروقت اس فکر میں رہتا تھا کہ مال میں کیسے مزید اضافہ کیاجائے۔ اس نے بنی اسرائیل کے بزرگوں سے کہا مجھے تمہاری نصیحتوں اور ہدایتوں کی کوئی ضرورت نہیں، میری عقل تم سےکہیں گنا زیادہ کام کرتی ہے اس لئے میں تم سب سے زیادہ مالدار بن چکاہوں۔
ایک دن قارون نے بہت عمدہ لباس پہنا اور بہت عمدہ گھوڑے پر سوار ہوا اور اپنے محل سے باہر نکلا بہت زیادہ نوکر چاکر بھی اس کے ساتھ تھے، بنی اسرائیل کے فقیر اور غریب لوگ قارون کے عظمت و شکوہ کو دیکھنے کے لیے راستے میں کھڑے تھے اور اس قدر سونے اور جواہرات کے دیکھنے پر حسرت کر رہے تھے۔ غریب لوگ کہتے کتناخوش نصیب ہے قارون! کاش !! ہم بھی قارون کی طرح ہوتے!!؟
زکات دینے کا حکم
ایک دن اللہ تعالٰی کی طرف سے حضرت موسی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ دولت مندوں سے کہو کہ وہ زکوٰۃ دیں۔
حضرت موسی علیہ السلام نے قارون کو اللہ تعالی کا حکم سنایا کہ اپنے مال کی زکوٰۃ دے۔ قارون نے حضرت موسی کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا: تم جھوٹے ہو! میں اپنی دولت دوسروں کو کیوں دوں؟ غریب بھی میری طرح محنت کریں اور دولت کمالیں۔
حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا زکوۃ اللہ کا حکم ہے تمہیں دینا پڑے گا کیونکہ تمہارے پاس موجود مال و دولت میں غریبوں کا بھی حصہ ہے۔
حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ کافی بحث کے بعد قارون نے زکات دینے کی حامی بھرلی اور گھرجاکر جب حساب و کتاب کیا تو بہت سارا مال دینا ہوا۔ اس نے سوچا اتنی بڑی دولت غریبوں اورناداروں کو دوں؟ یہ نہیں ہوسکتا!
قارون نے حضرت موسی علیہ السلام اور مومنین کی نصیحت کی نہ صرف پروا نہیں کیا بلکہ حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کرنے لگا یہاں تک تہمت لگانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام قارون کی گستاخی اور سخت دلی سے بہت ناراض ہوئے اور اللہ تعالی سے درخواست کی کہ اس حریص اور ظالم انسان کو نیست و نابود کرے۔
اللہ تعالی نے حضرت موسی علیہ السلام کی دعا قبول فرمائی، اللہ کے حکم سے زمین نے قارون کو محل اور تمام اموال سمیت نگل کر حریص قارون کا خاتمہ کردیا۔( قمی، تفسیر القمی، 1404، ج2، ص145.) یوں قارون خالی ہاتھ آخرت کی طرف روانہ ہوا۔ وہ لوگ جو قارون کو سعادتمند اور خوشبخت سمجھتے تھے اور اس کی دولت کی آرزو کرتے تھے اپنی غلطی کی طرف متوجہ ہوئے اور توبہ کی۔
قرآن مجید کی وہ آیات جن میں قارون کا تذکرہ کیا گیا ہے ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے غرور اور تکبر کی وجہ سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ (طبرسی، جوامع الجامع، 1377ش، ج3، ص232.)
نتیجہ: اس قرآنی قصے سے ہمیں درس ملتا ہے کہ اگر اللہ تعالی کسی کومال و دولت عطا فرمائے تو اللہ کی دی ہوئی نعمت پر شکر بجالاتے ہوئے غریبوں اور فقیروں کا خیال رکھنا چاہیے اور ہرگز ہرگز اپنے مال و دولت پر غرور اور تکبرنہیں کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالی ہی دولت دیتا ہے اورجب وہ چاہتا ہے پل بھر میں دولت چھین بھی لیتا ہے۔
ہم ان شااللہ شمس الشموس میگیزین کے آٗئندہ شماروں میں بھی اپنےقارئین کی خدمت میں مزید قرآنی قصے بیان کرتے رہیں گے۔ ہمارے ساتھ رہئیے اور اپنے مفید مشوروں سے نوازئیے۔
غلام مرتضی جعفری
بشکریہ شمس الشموس میگزین