کراچی والوں! کیسے مرنا چاہو گے؟؟


یہ فیصلہ کراچی کے شہریوں کے ہاتھ میں ہے کہ لائٹ جانے کی وجہ گھروں میں رہ کر گرمی اور حبس سے گھٹ کر مرنا ہے کہ پانی بھری گلیوں میں نکل کر کرنٹ کھا کر۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی جسے روشیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، میں اس بار گویا عید آئی ہی نہیں۔ پے در پے جوان اموات نے روشنیوں کے شہر سے عید کی خوشیاں چھین لیں، سہمے ہوئے شہریوں کے چہروں پر موت کے سائے ہیں۔

حالیہ بارشوں کے نتیجے میں کرنٹ سے ہونے والی اموات نے عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے گھبرا رہے ہیں کہ جانے پانی سے بھری کون سی گلی میں موت کرنٹ کی صورت میں ان کو آن لے۔

خاص طور پر ڈیفنس میں کرنٹ لگنے سے 3 جوان دوستوں کے جاں بحق ہونے کے بعد عید کی رونقیں دم توڑ چکی ہیں۔ عام عوام گھر سے نکلتے ہوئے کترا رہی ہے جس کے باعث گلیوں میں سناٹا دیکھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ 2 روز قبل طلحہ، حمزہ اور فیضان جو ایک ہی بلڈنگ کے رہائشی اور بچپن کے دوست تھے، بارش کی وجہ سے گھر میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے باہر نکلے جہاں بارش کے کھڑے پانی میں موجود کرنٹ لگنے سے پل بھر میں جاں بحق ہو گئے۔

جاں بحق ہونے والے دوستوں میں فیضان والدین کا واحد سہارا تھا جو ایک پرائیویٹ جاب کرتا تھا جبکہ طلحہ سی اے کر رہا تھا اور موت کے وقت روزے کی حالت میں تھا۔

میئر کراچی وسیم اختر نے جاں بحق ہونے والے نوجوانوں کے اہل خانہ سے ملاقات کی اور افسوس کا اظہار کیا۔

بعد ازاں کرنٹ لگنے سے ہونے والی اموات پر میئر کراچی وسیم اختر کے الیکٹرک کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے تھانے پہنچے تاہم پولیس نے مقدمہ درج کرنے سے انکار دیا۔ اس حوالے سے ایس ایچ او درخشاں شاہ جہاں لاشاری نے کہا کہ اعلیٰ حکام نے کسی کو نامزد کرنے سے منع کیا ہے۔

علاوہ ازیں پولیس نے میئر کراچی وسیم اختر سے کہا کہ پہلے ورثاء کو بلائو پھر مقدمہ درج کریں گے۔

بہرحال 6 گھنٹے کے بعد پولیس نے کے الیکٹرک کے مالک، سی ای او اور چیئرمین کے خلاف مقتول حمزہ کے لواحقین کی مدعیت میں مقدمہ تحت درج کردیا۔

یہ بحث بعد کی ہے کہ کس ادارے کی کوتاہی سے یہ افسوسناک واقعات رونما ہو رہے ہیں تاہم یہ بات تو طے ہے کہ بوڑھے والدین کے سامنے ان کے جوانوں کے جنازے اٹھ رہے ہیں۔

کراچی میں اگر آج کے بعد کبھی لائٹ نہ بھی جائے تب بھی ان 30 گھروں کے نصیب میں ہمیشہ کے لئے فقط اندھیرا ہے جن کے پیارے اب کبھی لوٹ کر نہیں آئیں گے۔

تحریر: سید عدنان قمر جعفری

(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)