پولیو کے حفاظتی قطرے؛ خیبر پختونخوا حکومت عوام کو قائل کرنے میں ناکام


پولیو کے حفاظتی قطرے؛ خیبر پختونخوا حکومت عوام کو قائل کرنے میں ناکام

حکومت کی تمام تر کوششوں کے باوجود صوبہ خیبر پختونخوا کے لاکھوں والدین اپنے بچوں کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے کے حق میں نہیں ہیں۔

خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق پاکستان کو پولیو سے پاک نہیں کیا جا سکا, خاص طور پر خیبرپختونخوا میں حکومت کو پولیو کے حفاظتی قطرے پلانے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔

گذشتہ ماہ صوبے میں چالیس لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ ایمرجنسی آپریشن سنٹر پولیو خیبر پختونخوا کے کورآرڈینیٹر کامران آفریدی کہتے ہیں کہ پولیو کے خلاف پروپیگنڈے کے بعد سات لاکھ بچوں کے والدین نے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے۔

والدین کے مسلسل انکار پر خیبرپختونخوا میں پولیو پر قابو نہیں پایا جا سکا۔  تازہ رپورٹ کے مطابق ضلع لکی مروت سے پولیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے جس کے بعد صوبے بھر میں پولیو کیسز کی تعداد 45 ہوگئی ہے۔

تفصیلات کے مطابق خیبرپختونخوا کے ضلع لکی مروت سے پولیو کا ایک اور کیس سامنے آیا ہے جس میں پولیو سے متاثرہ بچی کی عمر 5 ماہ ہے۔ محکمہ صحت کے ذرائع کے مطابق متاثرہ بچی کو پولیو سے بچاؤ کے حفاظتی قطرے نہیں پلائے گئے تھے، بچی کے نمونے قومی ادارہ صحت اسلام آباد کو بجھوائے گئے تھے جس میں پولیو وائرس کی تصدیق کی گئی ہے۔

واضح رہے کہ ضلع لکی مروت میں اس سے قبل 2 پولیو کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جبکہ صوبے میں بنوں ڈویژن سب سے زیادہ متاثرہ ہے جہاں رواں سال اب تک 30 کیسز سامنے آچکے ہیں۔

قبل ازیں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان لکی مروت اور بنوں کے ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسرز کو پولیو کے حوالے سے ناقص کارکردگی پر عہدوں سے ہٹا چکے ہیں۔

خیبرپختونخوا کے بعض دیگر اضلاع سے بھی پولیو کیسز رپورٹ ہوچکے ہیں جن میں شانگلہ میں ایک، ڈی آئی خان میں ایک، تورغر میں 5، ہنگو میں 2 اور چارسدہ سے ایک کیس رپورٹ ہوا ہے جب کہ ضم شدہ قبائلی اضلاع میں خیبر سے ایک، باجوڑ سے ایک اور شمالی وزیرستان سے 8 پولیو کیسز سامنے آچکے ہیں۔

ایمرجنسی آپریشن سنٹر کے کوآرڈینیٹر کامران احمد آفریدی کا کہنا ہے کہ پولیو کیسز کی بڑی وجہ والدین کا بچوں کو حفاظتی قطرے پلانے سے انکار ہے جب کہ پولیو ویکسین ہر لحاظ سے محفوظ ہے۔

دوسری جانب پولیو ٹیموں پر ہونے والے دہشتگردانہ حملے بھی اس صوبے سے پولیو کو ختم کرنے کی ناکامی کی وجوہات میں سے ایک ہے۔

یاد رہے کہ پاکستان میں رواں سال پولیو کے کیسز پچھلے 3 سال کے مجموعی پولیو کیسز سے زیادہ ہیں۔

 

 

 

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری