او آئی سی کی گولڈن جوبلی / مظلوموں کی امیدوں کی پچاسویں برسی


خون میں رنگے ان 50 سال کے بعد آج فلسطین میں شاید اتنی عمارتیں نہ ہوں جتنے کھنڈر ہیں، اتنے رہائشی علاقے نہ ہوں جتنے قبرستان ہیں لیکن فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔

اسلامی تعاون تنظیم ایک بین الاقوامی تنظیم ہے جس میں 57 مسلم اکثریتی ممالک شامل ہیں اور 21 اگست 1969 کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے ردعمل کے طور پر 25 ستمبر 1969 کو اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔

فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے اور ان پر ہونے والے مظالم کے سدباب کی غرض سے وجود میں آنے والی اسلامی تعاون تنظیم کئی دہائیوں سے اس قدر احتیاط سے کام کر رہی ہے کہ اسرائیلی حکومت پر کچھ گراں نہ گزرے۔

ایک طرف او آئی سی میں پالیسی ترتیب دینے میں سب سے اہم کام رکن ممالک کے سربراہان کا اجلاس ہے، جو ہر تین سال بعد منعقد ہوتا ہے اور اسی طرح سال میں ایک مرتبہ فیصلوں پر عملدرآمد کی صورتحال اور غور کے لئے وزرائے خارجہ کا اجلاس طلب کیا جاتا ہے۔

دوسری جانب کئی دہائیوں سے اسرائیل کی طرف سے کھلے عام فلسطینیوں پر مظالم ڈھائے جا رہے ہیں۔ ان پر میزائل برسائے جا رہے ہیں، ان کے بچے شہید اور قید کئے جا رہے ہیں، ان کے گھر مسمار کیے جا رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ نہایت باقاعدگی، خاموشی اور اسی احتیاط سے جس کا ذکر کیا جا چکا ہے، اسلامی تعاون تنظیم کے اجلاس کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔

آل سعود اور صہیونی حکومت کے تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ قدرتی بات ہے کہ سعودی عرب جس سے سینکڑوں ملین ڈالر کے ڈرون طیارے خریدے گا، اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر فلسطینیوں کے حقوق کی بات کرکے اپنے اس مہربان دوست کو کیسے خفا کر سکتا ہے۔

نتیجتا او آئی سی کے سعودی شہر جدہ میں موجود مستقل دفتر میں نہ تو آج تک ان اسرائیلی گولہ باری کی آواز سنی گئی جو صہیونی حکومت فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر برساتی ہے اور نہ ہی او آئی سی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر یوسف العثیمین کی سماعت تک فلسطینیوں کی آہ و بکا پہنچ سکی۔

 

کسی چھوٹی سے چھوٹی کمپنی کے چھوٹے سے چھوٹے عہدے پر بھی اگر کسی کو تعینات کیا جائے تو اس کی کارکردگی کے بارے میں سوال کیا جاتا ہے۔ 21 اگست 1969 کو مسجد اقصیٰ پر یہودی حملے کے رد عمل کے طور پر 25 ستمبر 1969 کو او آئی سی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ او آئی سی کے وجود میں آنے کا مقصد فلسطینیوں کو ان کے حقوق دلانے اور ان پر ہونے والے مظالم کے سدباب تھا۔

تو کیا فلسطین آزاد ہو گیا؟ فلسطینیوں کے حقوق ان کو مل گئے ہی؟ کیا ان پر ظلم نہیں ہو رہا؟

آج پورے 50 سال گزرنے کے بعد اگر او آئی سی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو سر شرم سے جھک جاتا ہے البتہ اگر اجلاس کے تسلسل اور منہ زبانی مذمت کی بات کی جائے تو او آئی سی کا نام آتے ہی عالم اسلام کا سینہ فخر سے چوڑا ہو جاتا ہے۔

ستم بالائے ستم یہ کہ جس ملک کے خلاف یہ تنظیم بنی تھی، اس کا ہیڈ کوارٹر اسی ملک کے ساتھ تجارت کرنے لگا ہے۔ سوال فقط اتنا سا ہے کہ کیا 50 سال پر محیط ڈھونگ کافی نہیں ہے؟ کیا اس تنظیم کے تعفن زدہ وجود کو ان بےشمار مظلوم فلسطینیوں کے ساتھ دفن نہیں ہو جانا چاہیئے جو اسرائیل کی بربریت کا نشانہ بنے؟

آج فلسطین میں شاید اتنی عمارتیں نہ ہوں جتنے کھنڈر ہیں، اتنے رہائشی علاقے نہ ہوں جتنے قبرستان ہیں لیکن فلسطینیوں کی نسل کشی کرنے والے اسرائیل کا ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں۔ عالم اسلام بھی نہیں، فلسطینیوں کے حقوق کی خاطر بننے والی اسلامی تعاون تنظیم بھی نہیں، او آئی سی کے 57 مسلم ارکان ممالک بھی نہیں، او آئی سی کا چوھدری آل سعود بھی نہیں۔

تحریر: سید عدنان قمر جعفری

(ادارے کا مصنف کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے)