قومیں غلطیاں کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے برباد ہوتی ہیں


قومیں غلطیاں کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے برباد ہوتی ہیں

خُدا داد اسلامی مملکت آف پاکستان کے اندر ہر پاکستانی کو آزادی سے جینے کا حق ہمارے آئین نے دیا ہے ۔ کسی کی سوچ پر پابندی لگانا بھی کسی کا حق نہیں ہے۔

 اسلئے میں بھی بحیثیت پاکستانی ایک آزاد شہری کی طرح سوچتا ہوں ۔کچھ لوگ انتہائی حساس اور کچھ سخت گیر مزاج کے مالک ہوتے ہیں۔

زندگی کا زیادہ حصہ گزار کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ کچھ لوگ شاید 20سے 25کی عمر میں مر جاتے ہیں انھیں صرف باقاعدہ دفن 60، 70 یا 80 سال کی عمر میں کیا جاتا ہے میرے خیال میں اُن لوگوں کی تعداد ہمارے معاشرے میں زیادہ ہے جو چلتی پھرتی زندہ لاشیں ہیں جنکے جسم اور دل مردہ ہو چکے ہیں۔

 شایدیہی وجہ بربادیئِ گلستاں ہے۔ یہاں کوئی اپنا جرم تسلیم کرنے کیلئے تیار نہیں ہے بلکہ چھوٹے چھوٹے فرعون ہر جگہ انسانیت کا مزاق اُڑاتے نظر آتے ہیں۔

ایک ہے Book of The Hours اور دوسری ہے Book of The Time مثال کے طور پر اخبار بُک آف آورز ہے جو مارننگ میں دس روپے اور شام کو ردی ہوتا ہے جبکہ بُک آف ٹائم ہمارے مذہبی سکالرز کی لکھی ہوئی کتابیں، احادیث مبارکہ کی کتابیں اور سب سے بڑھ کر قرآنِ کریم ہے، یہ Book Of The Time ہیں وقت کے ساتھ ساتھ ان کی قیمت اور قدرو منزلت بڑھے گی کم نہیں ہو سکتی۔

 انسان کو اللہ کریم نے اشرف المخلوقات پیدا کیا ہے اسے کوشش کرنی چاہیے کہ Book of The Hours نہ بنے بلکہ Book of The Time بنے۔

 مُلکِ پاکستان میں بہت سے لیڈرز آئے کچھ Book of The Hours اور کچھ Book of The Time بنے۔ اسی طرح کھیل کے میدان سے ایک بہادر انسان کامیابی کے جھنڈے گاڑھ کر سیاست کے میدان میں کامیابیاں سمیٹے ہوئے مجھے لگتا ہے کہ یہ "ٹیڑھی راہوں کا سیدھا مسافر ہے۔

دہشت گر مودی نے ہماری شہ رگ پر قبضہ ہی نہیں کیا بلکہ ہماری کشمیری قوم کو قید کیا ہوا ہے اور مظالم کے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔ میری سمجھ سے بات باہر ہے کہ جب کشمیریوں کا مقدمہ UNمیں لے کر جانے والا وزیر اعظم دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑتا ہے وہ واپس آتا ہے تو پاکستان پر حکمران رہنے والی جماعتیں اس کا راستہ روکنے کیلئے مولانا فضل الرحمن کو اسلام آباد پر چڑھائی کیلے آمادہ کرکے کشمیریوں کی جنگ میں اِن ڈائریکٹ مودی کا ساتھ دیتے ہیں اور کشمیر کاز کو نقصان پہنچا کر فاتحانہ انداز میں ہٹ دھرمی کے ساتھ پاکستان کی محبت کے دعویدار بھی بنتے ہیں۔

قومیں غلطیاں کرنے سے نہیں غلطیوں پر اصرار کرنے سے برباد ہوتی ہیں۔ قوم آج تک پاکستان میں تبدیلی کی منتظر ہے مگر ابھی تک قوم کو مہنگائی، بے روزگاری کے سوا کچھ نہیں ملا افسوس ہے کہ زرعی ملک کے اندر ٹماٹر تین سو روپے کلو فروخت ہو گئے۔

پاکستان کی بیورو کریسی اپنی جگہ پریشان ہے انھیں کام کرنے کیلئے حکومت کی سپورٹ درکار ہے۔ ہر روز نئے نئے تجربات کیے جاتے ہیں کسی افسر کو یہ علم ہی نہیں کہ وہ کل اس سیٹ پر ہوگا بھی یا نہیں۔ ہرایک کی عزت نفس ہوتی ہے۔ سرکاری ملازم ہونا کسی کی ذات برادری نہیں ہے وہ بھی ہماری طرح پاکستان کے معزز شہری ہیں میں ذاتی طور پر بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے بہت سال اپنے صوبے سے باہر کام کیا اور اپنے کردار کے حوالے سے انتہائی شریف النفس انسان ہیں ان میں کیپٹن (ر) عطا ء محمد جو کہ بحیثیت DIG آپریشن پنجاب کی ذمہ داریاں نبھا رہے تھے انھیں پھر صوبے سے سرنڈر کر دیا گیا ہے۔

کیا نظام اس طرح سے ٹھیک ہوتا ہے؟ میرے خیال میں نہیں ہو سکتا بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ جب حکمران بیورو کریسی کو کہتے ہیں کہ آپ کام کریں اور کوئی MNA یا MPA آپکے کام میں مداخلت نہیں کریگا تو جناب عالی وہ پبلک کے نمائندے ہیں انکی ہر جائز بات ہر صورت آپ کو اور بیورو کریسی کو سننا پڑیگی اور ڈیموکریٹک فورسز کو ہر صورت Respectکرنا پڑیگا۔

 اگر ایسا نہ کیا تو سابقہ ادوار کی طرح ایک دفعہ پھر کنٹرولڈ ڈیموکریسی کا گمان ہونے لگے گاا وربلا شک و شبہ کنٹرولڈ ڈیموکریسی ڈکٹیٹر شپ کا دوسرا نام ہے۔

پاکستان اس وقت حالتِ جنگ میں ہے ایسے حالات میں کمانڈر کا جانا ہر گز کوئی قوم افورڈ نہیں کر سکتی کہ ہم بہت سے محاذوں پر لڑ رہے ہیں دنیا اور ہمارے اندروی اور بیرونی دشمن برسرِپیکار ہیں انکی ایکسٹینشن پر جس طرح بہت سے لوگوں کی نااہلی سامنے آئی ہے اس سے ہماری جگ ہنسائی ہوئی ہے۔

 اب جو ہونا تھا ہو گیا مگر ذمہ داروں کو کم از کم گزٹ آف پاکستان سے ڈھونڈنا چاہیے تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے جب جنر ل گل حسن جو کہ تھری سٹار جنرل تھے اور 20دسمبر 1971 سے 3مارچ 1972 صرف تین مہینے آخری کمانڈر انچیف رہے اور اس کے بعد کمانڈر انچیف کا عہدہ تبدیل کر کے جناب جنرل ٹکا خان صاحب کو چیف آف آرمی سٹاف کے عہدے پر 3 مارچ 1972کو تعینات کیا۔

اگر چیک کیا جاتا تو کہیں نہ کہیں سے وہ نوٹیفیکیشن نکل سکتا تھا۔ جناب ذوالفقارعلی بھٹو صاحب ایک زیرک سیاستدان تھے انہوں نے شاید لازمی طور پر اس نوٹیفیکیشن میں ان سوالوں کا جواب دیا ہو جو آج سپریم کورٹ آف پاکستان نے اُٹھائے ہیں۔

تحریر: چوهدری عبدالغفور خان

نوٹ: ادارے کا لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری