ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے! افتخارعارف
سربراہ مقتدرہ قومی زبان افتخارعارف کا کہنا ہے کہ میں نے ہندوستان اس لئے چھوڑا کیونکہ وہاں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔
معروف شاعر افتخار عارف نے تسنیم نیوز کے نامہ نگار سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ آج بھی ظلم اور زیادتی کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، ہندتوا کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے۔
انہوں نے تسنیم خبررساں ادارے کے نامہ نگار کے سوالات کے جوابات دیئے۔
سوال: اپنے بنیادی تعارف سے آغاز کیجئے، پیدائش کہاں ہوئی، زندگی کہاں گزری، تعلیم کہاں حاصل کی؟
افتخار عارف: جی میں اکیسویں مارچ 1943 کو لکھنو میں پیدا ہوا، میرے والدین وہیں کے رہنے والے تھے، ہم کہیں باہر سے لکھنو نہیں آئے تھے، ابتدائی تعلیم کے لئے مدرسہ نظامیہ فرہنگی محل میں کچھ دن گزارے، بعد ازاں سلطان المدارس میں کچھ عرصہ دینی تعلیم حاصل کی، جلد ہی دینی تعلیم کے مدرسہ سے اٹھا لیا گیا اور موجودہ تعلیم جوبلی سکول اور جوبلی کالج سے حاصل کی، بی اے اور پھر ماسٹرزلکھنو یونیورسٹی سے کیا۔
اس زمانے کا لکھنو بہت ہی ثروت مند تھا، لکھنو میں مسلمان صرف چودہ فیصد تھے، تاہم اس کی شناخت ایک مسلم شناخت تھی، اس زمانے کے علما میں حضرت مولانا عبدالباری فرہنگی محلی، ابوالحسن ندوی، نیاز فتح پوری وغیرہ علامہ سید علی نقی نقوی وغیرہ ادیبوں، شعرا اور مذہبی لوگوں سے لکھنو بھرا پڑا تھا۔
1965میں جب میں نے دوسرا ماسٹرز مکمل کیا تو طے کر لیا تھا کہ میں نے پاکستان جانا ہے، چونکہ میں بہت افسردہ اور غمگین رہتا تھا، چونکہ یہ بات واضح تھی کہ ہندوستان میں مسلمانوں کا کوئی مستقبل نہیں ہے، ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ آج بھی ظلم اور زیادتی کا سلوک روا رکھا جا رہا ہے، ہندتوا کے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے، خیر میں اکیس برس کی عمر میں پاکستان آگیا، میرے پاس کوئی سفارش نہیں تھی، میرا بہت ہی غریب گھرانے سے تعلق تھا، میرے نانا محنت مزدوری کرتے تھے، انہوں نے ہی مجھے پڑھایا لکھوایا اور میری والدہ کو بھی پڑھایا، انہوں نے اس زمانے میں مڈل کیا ہوا تھا، بیشمار شعر انہیں یاد تھے اور وہ مجلس پڑھا کرتی تھیں، میلاد نامے اور شہادت نامے انہیں یاد تھے، یاور مہدی اللہ انہیں صحت دے، جو آج کل صاحب فراش ہیں، انہوں نے مجھے ریڈیو میں موقع دلایا، وہیں پہلی مرتبہ میری عبید اللہ بیگ اور قریش پور سے ملاقات ہوئی، اور اب میں وہاں ہندی میں خبریں پڑھنے لگا۔ ایک بلیٹن کے دس روپے ملتے تھے، اور ٹرانسلیشن کر دوں تو دس اور مل جایا کرتے تھے، ابھی میں ریڈیو میں ہی تھا تو میری شادی ہو گئی اور میرے ہاں ایک بیٹی کی ولادت ہوئی، اگست کے مہینے میں وہ پیدا ہوئی اور نومبر میں ٹی وی آگیا، سلیم گیلانی ہمارے ہم عصر اور بہت شفقت فرمانے والے تھے وہ مجھے ٹی وی میں لے آئے۔
سوال: ذہنی آزمائش کے لئے آپکا ایک کھیل "کسوٹی" بہت مقبول ہوا، اس کے بارے میں ہمارے قارئین کو بتائیے۔
افتخار عارف: ہم ذہنی آزمائش کے لئے کھیل کرتے رہتے تھے، سلیم گیلانی صاحب نے اس وقت کے ٹی وی کے مدار المہام اسلم اظہر صاحب سے کہا کہ یہ فارغ اوقات میں ذہنی آزمائش کے لئے کسوٹی کرتے ہیں۔ انہوں نے ہمارا امتحان لیا اور کہا کہ آپ پرسوں سے پروگرام شروع کر دیجئے اور اس طرح ہم نے کسوٹی شروع کیا۔ کسوٹی مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں جگہوں پر دکھایا جاتا تھا۔
سوال: جوانوں کے لئے کیا کہنا چاہیں گے، خاص طور پر جب ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے کے باوجود آپ نے نام کمایا، تو وہ کیا خاص مراحل اور تجربات تھے جن سے یہ سب ممکن ہوا؟
افتخار عارف: کسی کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ اس نے بہت محنت کی اور اس کے اندر بہت زیادہ ذہانت تھی، میرا یہ ایمان، یقین اور تجربہ بھی ہے، اللہ سبحانہ تعالیٰ توفیقات عطا فرماتے ہیں اور جس کو وہ چاہتے ہیں عزت بخشتے ہیں۔ دوسری بات کسی شخص میں ایک آرزو اور امید پیدا نہیں ہوتی، جس کے حصول کی لیاقت اور استعداد پہلے سے اس کے اندر موجود نہ ہو۔ مگر ہم جانتے نہیں ہیں کہ ہم میں کون کون سی خصوصیات موجود ہیں۔ ایک اور اہم بات وقت ہے، کہ ہم وقت کو کیسے اپنے حق میں کر لیتے ہیں۔ اور اس کو کیسے استعمال کرتے ہیں۔
بعض اوقات آپ کی کمزوریوں کو بھی اللہ تعالیٰ آپ کی طاقت بنا دیتا ہے، مثلا ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی، میں لالٹین کی روشنی میں پڑھتا تھا، بعض اوقات تیل ختم ہو جاتا تھا، اب میں جاگتا رہتا تھا اور جو پڑھا ہوتا تھا اسے دھراتا رہتا تھا، اسی طرح میرے پاس سواری نہیں تھی تو پیدل چلتا تھا اور جو پڑھا ہوتا تھا اسے دھراتا اور سوچتا رہتا تھا۔ تو اس طرح میرے حافظے کی تربیت ہو گئی، اسی طرح گرمیوں کی چھٹیوں میں روشن الدولہ لایبریری میں سورج ڈھلنے تک پڑھا کرتا تھا۔
سوال: آپ شاعر ہیں، کیا آپ نے کبھی محبت کی؟
افتخار عارف: میرے پاس تو وقت ہی نہیں تھا، ایسا نہیں ہے کہ کوئی اچھا نہیں لگا، ہر آدمی کو کوئی شخص اچھا لگتا ہے، عورت کو کوئی شخص اچھا لگتا ہے، انسان کی سرشت میں اللہ نے یہ چیز رکھی ہے، ایسا تھا لیکن زندگی میں کچھ ترجیحات ہوتی ہیں، لوگ جب گھوم پھر رہے ہوتے، لڑکے سگریٹ پی رہے ہوتے تو میں پڑھ رہا ہوتا تھا۔
سوال: شاعری کی طرف کیسے رغبت ہوئی؟
افتخار عارف: لکھنو میں کوئی گلی کوچہ ایسا نہیں تھا، جہاں شاعر نہ ہو، یہ فن شریف ایسا تھا کہ اس میں مرد و خواتین سب ہی تھے، بیت بازی کے مقابلے ہوا کرتے تھے۔ اسی طرح مجالس میں سوز خوانی ہوا کرتی تھی، گھروں میں نوحے پڑھے جاتے تھے، ماتم ہوتا تھا، آپ چاہیں یا نہ چاہیں، ماتم میں ایک لے ہوتی ہے، اس سے آپکو لحن، وزن اور بحر کا اندازہ ہوتا تھا، ہم نے عروض نہیں پڑھا، عروض پڑھ کے کوئی شاعری نہیں کر سکتا، لحن آپ کے اندر ہوتا ہے، اور آپکو اس کی تربیت کرنی ہوتی ہے۔ ہر شاعر توفیق اللہ کی طرف سے ہے۔
سوال: اپنی شخصیت میں توازن اور ٹھہراو کے لئے آپ نے کیا اقدامات اٹھائے حالانکہ آپکو اس سفر میں کٹھن حالات کا سامنا بھی کرنا پڑا؟
افتخار عارف:سب سے اہم بات یہ ہے کہ میرا اس بات پر یقین کامل تھا کہ زندگیاں اللہ تعالیٰ کی مشیت کے تابع ہیں، پروردیگار عالم جس کو چاہتے ہیں نوازتے ہیں، محنت رائیگاں نہیں جانے دیتے، سنت الیہہ ہے جو بھی محنت کرتا ہے اسے اس کا اجر ضرور ملتا ہے، اول دن سے میرا پختہ یقین تھا کہ میں محنت کرونگا اور اللہ تعالیٰ مجھے کامیابی سے ہمکنار کریگا۔ میں انجنیئر، ڈاکٹر یا سائنسدان نہیں بننا چاہتا تھا، میں کتاب پڑھنا اور پڑھانا چاہتا تھا، کتاب سے میرے تعلق کو اللہ نے میرے لئے وسیلہ رزق بنایا۔ دوسری بات یہ ہے کہ مجھے آسودہ حال زندگی کے زیادہ ہوس نہیں تھی، سب سے اہم بات یہ بھی ہے کہ میں نے اپنے وقت کو ضائع نہیں کیا، بہت ہی جلد مجھے کسوٹی کے حوالے سے ٹی وی پر مجھے اللہ تعالیٰ نے پورے ملک میں عزت دی اور مقبولیت ہوئی۔ پھر یہاں سے برطانیہ چلا گیا اور وہاں میں نے اردو مرکز قائم کیا، بہت ہی کم عرصے میں یہ مرکز ہندوستان پاکستان سے باہر اردو کا بڑا مرکز قرار پایا، ملک واپس آکر میں اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین رہا، مقتدرہ قومی زبان کا چیئرمین رہا، اسی طرح ای سی او آئی سی میں بطور صدر ذمہ داریاں ادا کیں، مگر سب جگہ میں نے بہت محنت کی۔
سوال: موجودہ دور کے جوانوں کے لئے کیا خاص پیغام دینا چاہیں گے؟ وہ کیا مراحل تھے جن سے گزر کر آپ اس مقام تک پہنچے؟
افتخار عارف: دراصل زندگی میں ترقی اور کامیابی کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کرم شامل حال ہو، اور پھر جو صلاحیتیں اللہ سبحانہ تعالیٰ نے آپکو ودیعت فرمائی ہیں ان کا استعمال ہو، وقت کا صحیح استعمال ہو، محنت کریں ریاضت کریں۔
نوجوانوں کے بارے میں ایک شعر لکھا تھا کہ
آسمانوں پر نظر کر انجم و مہتا ب دیکھ
صبح کی بنیاد رکھنی ہے تو پہلے خواب دیکھ
تو جناب جب تک آپ اپنے لئے کوئی ہدف مقرر نہیں کرینگے، منزل کی جانب کیسے گامزن ہو سکتے ہیں۔ ہائے وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہو کوئی ہدف جب آپ کوئی ہدف طے کریں گے تو ممکن ہے کہ وقت سے پہلے وہاں آپ پہنچ جائیں۔
میں ایک بہت ہی غریب گھرانے سے تھا، میرا ایک ہدف تھا کہ میں جس سکول میں پڑھتا ہوں، اس سکول کا ہیڈ ماسٹر بنونگا، اپنی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ دعا کی، نبی صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسوہ ہمارے لئے مشعل راہ ہے، وہ اللہ کے رسول (ص) تھے، اللہ کی تمام مہربانیاں، کرم، ان کے شامل حال تھا، اس کے باجود جب بدر کے میدان میں صف آرا ہوتے ہیں تو اللہ سے دعا کر رہے ہوتے ہیں، اے اللہ یہ تین سے تیرہ لوگوں پر مشتمل جماعت تیری واحد جماعت، ادھر دعا کر رہے ہوتے ہیں اور ادھر صف آرائی بھی ہو رہی ہوتی ہے، قلب میں یہ ہوگا، میمنہ میں یہ ہوگا، میسرہ میں اس طرح حکمت عملی ہوگی، یعنی غزوے کی تیاری، آمادگی، یہ سب اور دعا، یعنی دعا مشروط ہے عمل کے ساتھ، اسی طرح امام جعفر صادق علیہ السلام کا فرمان ہے کہ دعا مشیت الہی پر اثر انداز ہوتی ہے۔