کوئٹہ: 200 سال پرانا مندر ہندو برادری کو واپس دے دیا گیا
کوئٹہ: ژوب کے علاقے میں 200 سال پرانا مندر 72 برس بعد حکام نے ہندو برادری کے حوالے کردیا۔
تسنیم نیوز کے مطابق اس مندر کو 30 سال تک سرکاری اسکول کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا تاہم اب اسکول کو کسی اور مقام پر منتقل کردیا گیا ہے۔
4 کمروں پر مشتمل اس مندر کی چابی ایک تقریب کے دوران ہندو برادری کے حوالے کیے گئے۔
ژوب کی مرکزی مسجد اور جمعیت علما اسلام کے رہنما مولانا اللہ داد کاکڑ اس تقریب میں مہمان خصوصی کے طور پر موجود تھے جس میں ڈپٹی کمشنر سلیم طحہٰ، ہندو برادری اور دیگر اقلیتی براردری کے عمائدین اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما موجود تھے۔
مولانا اللہ داد کاکڑ نے مندر کے دروازے کی چابی مقامی ہندو پنچایت کے صدر سلیم جان کے حوالے کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر طحہ کا کہنا تھا کہ 'بلوچستان اور ژوب کے لیے یہ تاریخی اور اہم دن ترین دن ہے'۔
ان کا کہنا تھا کہ مولانا اللہ داد کاکڑ نے مندر کو ہندو برادری کے حوالے کرنے کے حکومتی فیصلے کی حمایت کی نہ صرف حمایت کی ہے بلکہ خود بھی تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے ہیں جو مذہبی ہم آہنگی کے لیے بہترین مثال ہے'۔
انہوں نے مندر کو 70 سال سے ہندو برادری کے حوالے کرنے میں تاخیر پر معذرت کی اور کہا کہ مندر کی عمارت کو اس کی اصل حالت میں بحال کیا جائے گا۔
مندر کی عمارت کی تزئین و آرائش کے بعد ہندو برادری اسے اپنی عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرسکیں گے۔
سلیم جان کا کہنا تھا کہ مندر 200 سال پرانا ہے اور پاکستان کے قیام کے بعد ہندو برادری ژوب سے بھارت ہجرت کرگئی تھی تاہم اب بھی شہر میں ان کی بڑی تعداد موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 'گزشتہ 30 سال سے مندر کی عمارت کو سرکاری اسکول کے طور پر استعمال کیا جارہا تھا تاہم خوشی کی بات یہ ہے کہ 600 طالب علموں کو اسکول کے لیے نئی جگہ مل گئی ہے'۔
سلیم جان کا کہنا تھا کہ موجودہ ہندو برادری مٹی کی بنی عمارت کو اپنی عبادت گاہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے جو کبھی بھی گر سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس جمال خان مندو خیل نے حال ہی میں ژوب کا دورہ کیا تھا جس کے دوران ہندو برادری نے ان سے مندر کی واپسی کی درخواست کی تھی اور انہوں نے ہندو برادری کو یقین دہانی کرائی تھی کہ عمارت ان کے حوالے کردی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ مقامی سکھ برادری کو بھی ان کے گردوارہ سے کافی عرصے سے محروم رکھا گیا ہے اور ان کے پاس اپنی مذہبی فرائض کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ گردوارہ کی عمارت میں بھی سرکاری اسکول قائم ہے۔