دنیا کے مفکرین اور تجزیہ نگار اس فکر اور سوچ میں ہیں کہ کورونا کے بعد دنیا کا مستقبل کیا ہو گا؟


دنیا کے مفکرین اور تجزیہ نگار اس فکر اور سوچ میں ہیں کہ کورونا کے بعد دنیا کا مستقبل کیا ہو گا؟

بعض مفکرین کے مطابق دنیا کی موجودہ حکمرانی خطرے میں ہے اور دنیا بالکل تبدیل ہونے جا رہی ہے ایک نیا نظام ہو گا اور حکمرانی کا طریقہ بھی  تبدیل ہو جائے گا۔

تسنیم خبررساں ادارہ: بعض مفکرین کا خیال ہے کہ ہم آخرالزماں کے نزدیک پہنچ چکے ہیں منجی بشریت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور نزدیک ہے ۔

کورونا کو تیسری جنگ عظیم کا نام بھی دیا جا رہا ہے جس نے پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا کرونا  وائرس سونامی سے بھی بدتر ہے جس طرف بھی رخ کر رہا ہے تباہی پھیلا رہا ہے۔ کرونا  کا  ڈر اور خوف اپنی جگہ پر لیکن کرونا کے بعد دنیا کا کیا ہو گا یہ اس سے بھی زیادہ اہم ہو گیا ہے۔بہت سے اہم سوالات جنم لے رہے ہیں کہ کرونا کے بعد دنیاکا کیا ہو گا؟  کیا اہم واقعات رونما ہونے والے ہیں؟ کیا یہ تیسری جنگ عظیم ہے؟ کیا دنیا کی اقتصاد تباہی کی طرف جا رہی ہے اور قحطی کا زمانہ آنے والا ہے؟کیا لوگ ایک ٹیشو پیپر کے لئے ایک دوسرے پر اسلحہ تان لیں گے؟ کیا آخرالزماں نزدیک  ہے اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور ہونے والا ہے؟کیا دنیا اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے؟ اور کئی اس طرح کے سوالات کہ آخر کار کیا ہو گا؟


دنیا کے طاقتور ترین ممالک امریکہ اور یورپ اپنے آپ  کو دنیا کا نجات دہندہ سمجھنے والوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہی ہے اس وائرس سے کیسے نمٹا جائے یہ ممالک بھی اس وائرس کے مقابلے سے عاجز دکھائی دیتے  ہیں۔  ڈر اور خوف کے مارے اس کا اعتراف بھی کر رہے ہیں جس کی ایک مثال جرمن ریاست کے وزیر خزانہ تھامس شیفر کی خودکشی ہے۔

 

امریکہ کے معروف مفکراور تجزیہ نگار عمانوئل والرسٹن (Immanuel Wallerstein)  جو کہ ماہرعمرانیات(Sociologist)  اور  ماہر معاشیات(Economist)  بھی ہیں اپنی معروف کتاب   The Modern World System  میں اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ دنیا کا نظام دو قطبی یعنی شرق و غرب سے نکل کر تین قطبی یا چند قطبی کی طرف جا رہا ہے۔
اب سوال  پیدا ہوتا ہے کہ یہ  خطرناک کرونا  وائرس  دنیا کے موجودہ نظام کو تباہی کی طرف اور جدید نظام کی بنیاد رکھنے جا رہا ہے؟  اور کیا یہ

کرونا وائرس ایک بائیولوجیکل ہتھیار (Biological Weapon)  ہے یا ایک طبیعی وائرس (Natural Virus) ہے؟دنیا کی بعض معروف شخصیات کے مطابق اس چیز کا قوی امکان ہے کہ یہ ایک بائیولو جیکل جنگ ہے بہرحال اس کی حقیقت کچھ عرصہ تک واضح ہو جائے گی کہ کہانی کیاہے۔
  کرونا کے بعد کی کہانی کیا ہو گی اس کے بارے میں  عمانوئل والرسٹن (Immanuel Wallerstein)  کا مقالہ(Consequences of  U.S. Decline)  جو 2013 میں چاپ ہوا اس میں راقم اس بات پر تاکید کرتا ہے کہ امریکہ اپنے اختتام کے آخری مرحلہ میں داخل ہو چکا ہےاور ہم آنے والے وقت میں دنیا میں ایک جدید نظام کا مشاہدہ کریں گےجس میں امریکہSuper Power نہیں ہو گا اور اس کا متبادل چین ہو سکتا  ہے لیکن تجزیہ نگار کے مطابق امریکہ کے بعد کسی ملک کو دنیا پر حکمرانی کرنے کے لئے نصف صدی کی ضرورت ہو گی جو ایک طولانی عرصہ ہے جس میں کئی اہم واقعات رونما ہو سکتے ہیں امریکہ کے فورا بعد شاید کوئی بھی ملک  دنیا پر حکمرانی کرنے کے قابل نہ ہو اور دنیا کو کنٹرول کرنا ایک ملک کے بس کی بات نہیں ہو گی بلکہ ممکن ہے چند ممالک مل کر دنیا میں حکمرانی کریں۔

  یہ مقالہ 2013 میں لکھا گیا جس  میں راقم نے پیش گوئی کی ہے کہ امریکہ کو عراق اور افغانستان سے بری طرح شکست کھا کر نکلنا پڑے گااور ڈالر کی جگہ چین کی کرنسی یوان(Yuan)   یا  روس ، چین، ترکی، ایران  ، پاکستان  اور ایشیا کے کچھ اور ممالک مل کر ڈالر کے متبادل کوئی کرنسی متعارف کروائیں گے جس سے امریکہ اس ضعیف اور ناتوان بوڑھے شخص کی طرح ہو جائے گا جو فقط اپنے زندہ ہونے کا اظہار کر سکے گا اور یورپی ممالک بھی اسے کوئی گھاس نہیں ڈالیں گے۔  

مشرق وسطی کی صورت حال کو دیکھ کر بھی یہ کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ اب مشرق وسطی میں آخری سانسیں لے رہا ہےاور کسی صورت بھی اس خطے میں کامیابی حاصل نہیں کر سکتا۔ ایران کے سپاہ پاسدران کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد امریکہ کی کامیابی  مشرق وسطی میں  مشکل سے ناممکن تک کا سفر طے کر چکی ہے۔

امریکہ کی ایران سے دشمنی بھی اسی وجہ سے ہے کہ وہ اپنے زوال کا سبب ایران کو سمجھتا ہےایران خطے میں امریکہ کی ہر پالیسی کی مخالفت بھی کرتا ہے اور اس کا راستہ بھی روکتا ہے جس کی وجہ سے امریکہ ایران کو اپنا سب سے بڑا دشمن تصور کرتا ہے اور اس پر سخت اقتصادی پابندیاں لگاتا ہے۔ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اپنی ایک تقریر میں امریکہ کے بارے میں یوں پیش گوئی کی ہے کہ جس طرح اتنا بڑا، عظیم اور شاندار ٹائیٹینک جہاز اپنے آپ کو ڈوبنے سے نہیں بچا سکا اسی طرح امریکہ بھی اپنے آپ کو غرق ہونے سے نہیں بچا سکے گا اور نابود ہو جائے گا

کرونا فقط امریکہ کے زوال کے طرف اشارہ نہیں کر رہا بلکہ اس بات کی طرف بھی متوجہ  کر رہا ہے کہ کرونا چاہے بائیولوجیکل اسلحہ(Biological Weapon)   ہو یا  نہ بھی ہو تو اس کے بعد دنیا کا نظام تبدیل ہو جائے گا ۔ کرونا یہ بھی بتا رہا ہے کہ ایٹم بم دنیا کا قدیمی اسلحہ ہو چکا ہے اور اب دنیا پر ایٹم بم نہیں بلکہ بائیولوجیکل سائنس حکمرانی کرے گی ۔

  دوسری جنگ عظیم میں سب لوگ یہ  خیال کر رہے تھے کہ یہ آخرالزمان ہے اور امام مہدی علیہ السلام کا ظہور نزدیک ہے لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ ایک نئے اقتصادی اور صنعتی ترقی کے دور میں داخل ہو گیا اور دنیا میں ایک جدید نظام کا آغاز ہو گیا جس کے بعد یورپ نے اقتصادی میدان میں اس قدر ترقی کی  کہ یورپی یونین کی تشکیل کے ساتھ جرمنی، فرانس اور انگلینڈدنیا کے  طاقتور ترین ممالک میں شامل ہو گئے۔
کرونا کے بعد قوی امکان ہے کہ امریکہ کی قیادت میں قائم صنعتی ممالک زوال پزیر ہوں گے اور دنیا کی حکمرانی اس کو نصیب ہو گی جو کرونا وائرس کی ویکسینیشن (Vaccination)تیار کرے گا ۔ عمونائل کے مطابق کیا چین دنیا کی نجات کا سبب ہو گا؟ موجودہ حالات کے مطابق چین اپنے آپ کو ثابت کر رہا ہے کہ وہ دنیا پر حکمرانی کی اہلیت رکھتا ہے۔

  دنیا کے نظام کا چرخہ چل رہا ہے لوگ پیدا بھی ہو رہے ہیں اور مر بھی رہے ہیں یہ دنیا اپنے اختتام کی طرف گامزن ہے۔ بعض مفکرین کے مطابق یہ امریکہ کے زوال کا سبب اور دنیا میں ایک جدید نظام کا پیش خیمہ ہے۔ مذہبی پیشواوں کے مطابق آخرالزمان اور امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کا وقت اور علمی نظریے کے مطابق دنیا کی تاریخ کا اختتام ہے۔

تحریر: رضوان حیدر نقوی

اہم ترین مقالات خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری