نیب نے چوہدری برادران کا مؤقف مسترد کردیا


نیب نے چوہدری برادران کا مؤقف مسترد کردیا

قومی احتساب بیورو (نیب) نے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے رہنما چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی (چوہدری برادران) کی جانب سے اپنے خلاف زیرالتوا کچھ انکوائریز سے متعلق دائر کی گئی درخواستوں میں اپنائے گئے موقف کو مسترد کردیا۔

مقامی ذرائع کے مطابق ایک بیان میں نیب اسلام آباد نے شکایت کی کہ چوہدری برادران کے خلاف انکوائریز کو بنیاد بنا کر ادارے کو ایک نہ ختم ہونے والے 'پروپیگینڈا' کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ چیئرمین نیب کی جانب سے ان کیسز پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں لیا یا کوئی ایسا حکم جاری کیا جسے عدالت کے سامنے چیلنج کیا جاسکے۔

نیب کی جانب سے مزید کہا گیا کہ تمام پرانے کیسز میں معمول کے طریقے کے تحت تحقیقات کی گئی تھی چونکہ انہیں غیرمعینہ مدت کے لیے بند کرکے نہیں رکھا جاسکتا۔

ساتھ ہی احتساب کے ادارے نے کہا کہ وہ ایک آزاد ادارہ ہے اور اس کی کوئی سیاسی وابستگی نہیں، لہٰذا میڈیا قیاس آرائیوں سے گریز کرے اور زیر التوا کیسز سے متعلق خبر نشری یا شائع کرنے سے پہلے ترجمان سے موقف لے لیں۔

علاوہ ازیں لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان مسلم لیگ (ق) کے چوہدری شجاعت حسین اور چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے اختیارات اور اپنے خلاف تین انکوائریز پر دائر درخواستوں کی سماعت ہوئی تھی۔

اس موقع پر اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی خود عدالت کے روبرو پیش ہوئے تھے جبکہ لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ اور امجد پرویز بھی ان کے ہمراہ تھے۔

بعد ازاں عدالت عالیہ میں جسٹس سردار احمد نعیم اور جسٹس فاروق حیدر پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے کیس کی مختصر سماعت کی تھی۔

سماعت کے دوران روسٹرم پر موجود لاہور ہائیکورٹ بار کے صدر طاہر نصراللہ وڑائچ نے چوہدری برادران کا کیس سنے والے بینچ پر اعتراض اٹھایا تھا اور کہا کہ جسٹس فاروق حیدر چوہدری برادران کے کیسز کی پیروی کرتے رہے ہیں لہٰذا یہ بینچ چوہدری برادران کا کیس نہ سنے۔

جس پر جسٹس سردار احمد نعیم نے کہا تھا کہ انہوں نے کیس کی فائل ابھی پڑھی نہیں ہے بہتر ہے اس کیس کو پیر کے لیے رکھ لیا جائے۔

بعد ازاں عدالت نے چوہدری برادران کے کیس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی تھی۔

اس موقع پر چوہدری پرویز الٰہی نے میڈیا سے بات نہیں کی تھی لیکن ان کے پارٹی کے رہنما کامل علی آغاز نے بتایا تھا کہ نیب نے چوہدری برادران کے خلاف 20 سال قبل ایک گمنام شکایت پر انکوائریز شروع کی تھیں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی جماعت کا یہ پرانا موقف ہے کہ نیب کو سیاسی انتقام کے لیے قائم کیا گیا۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز چوہدری برادران نے قومی احتساب بیورو کے چیئرمین کے اختیارات کے غلط استعمال اور اپنے خلاف 20 سالہ پرانی 3 تحقیقات کو عدالت عالیہ میں چیلنج کیا تھا۔

لاہور ہائی کورٹ میں اپنے وکیل امجد پرویز کے توسط سے دائر کی گئیں 3 ایک جیسی درخواستوں میں مسلم لیگ (ق) کے رہنماؤں نے مؤقف اپنایا تھا کہ سال 2000 میں مذکورہ بیورو کے چیئرمین نے قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت درخواست گزاروں کے خلاف اختیارات کے غلط استعمال، آمدن سے زائد اثاثے سے متعلق انکوائریز کی منظوری دی۔

تحریک انصاف کے اتحادیوں کی جانب سے دائر اس درخواست میں اعتراض اٹھایا گیا کہ نیب کا قیام، اس کی ساکھ، برابری اور اس کا 'سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال' نہ صرف سیاسی جماعتوں بلکہ قومی اور بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور دانشوروں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔

درخواست گزاروں کے مطابق سال 2017 اور 2018 میں جب ان کے حریف اقتدار میں تھے تب نیب کے ریجنل بورڈ اور تفتیشی افسران کی جانب سے تینوں انکوائریز کو بند کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

انہوں نے کہا کہ تاہم چیئرمین نیب نے 2019 میں ہمارے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کے معاملے کی 19 سال بعد دوبارہ منظوری دے دی۔

چوہدری برادران نے عدالت سے ان انکوائریز کی منظوری کو کالعدم قرار دینے اور چیئرمین نیب کی جانب سے دیے گئے احکامات کو غیرقانونی قرار دینے کی استدعا کی تھی۔

اہم ترین پاکستان خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری