امریکا میں نسل پرستی کےخلاف مظاہرے جاری، ہزاروں گرفتار
امریکا میں پولیس کے تشدد سے سیاہ فام شہری کی ہلاکت پر شروع ہونے والا احتجاج تحریک میں تبدیل ہو گیا ہے اور پورے ملک میں جاری مظاہروں سے 10 ہزار افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے کےمطابق، گرفتار ہونے والوں میں سے 86 فی صد کا تعلق امریکا کے دارالحکومت سے ہے۔ اس کے علاوہ ریاست منی سوٹا کے شہر منیاپلس میں سیاہ فام جارج فلائیڈ کی موت بعد شروع ہونے والے احتجاج کے دوران گرفتار ہونے والے 3ہزار سے افراد کی رہائی کے لیے لاس اینجلس میں قائم کردہ آن لائن فنڈ میں 20 لاکھ ڈالر کی رقم بھی جمع ہوچکی ہے۔
مختلف شہروں میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے آنسو گیس اور لاٹھی چارج کا استعمال کیا۔ لوٹ مار روکنے کیلئے نیشنل گارڈ تعینات کر دئیے گئے۔ اہم عمارتوں کی سیکیورٹی فوج کے حوالے کر دی گئی ہے۔
شدید عوامی دباو کے بعد واقعے کے مرکزی ملزم سفید فام پولیس اہلکار کے خلاف مقدمے میں مزید سخت دفعات شامل کر دی گئیں۔ تین دیگر پولیس اہلکاروں کو بھی مقدمے میں شامل کر لیا گیا ۔اٹلانٹا شہر میں مظاہرین کیخلاف طاقت کے بے جا استعمال پر چھ پولیس اہلکاروں کو برطرف کر کے فرد جرم عائد کر دی گئی ۔
نسل پرستی اور سیاہ فام برادری سے منافرت کے خلاف تحریک پورے ملک میں پھیل گئی ہے۔ نیو یارک، واشنگٹن، نیو اورلینزاور مینی سوٹا میں مشتعل مظاہرین نے ریلیاں نکالیں۔ مقتول جارج فلائیڈ کیلئے انصاف کا مطالبہ کرنے کے لیے ہزاروں افراد سڑکوں پر نکلے۔
وزیر دفاع مارک ایسپر مظاہروں بارے صدر ٹرمپ کی پالیسی کے مخالف بن گئے۔۔ میڈیا بریفنگ میں کہاکہ۔۔ مظاہرے ختم کرانے کیلئے پولیس کا استعمال درست نہیں۔ سابق وزیر دفاع جیمز میٹس نے کہاکہ ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے صدر ہیں جو امریکی عوام کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کر رہے۔