امام رضا علیہ السلام کی سیاسی زندگی پر ایک نظر


زیر نظر مقالہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی سیاسی زندگی پر ایک نظر کے عنوان پرمشتمل ہے لہذا اس سلسلے میں مختصر طور کچھ معروضات پیش کئے جائیں گ

مقدمہ:
داخلی امور  ہوں یا خارجی، معاشرتی کام ہوں یا حکومتی، بازار ہو یا پارلمینٹ، ایک ملک کا دوسرا ملک پر حملے کا زمانہ ہو  یا الیکشن کے نتیجوں کا  انتظار، تاج پوشی کا جشن ہو یا حکومت  کا دور، ہر وقت، ہر روز ، ہر معاشرے اور ہر ملک میں ایک لفظ جو اکثر و بیشتر سنائی دیتا ہے وہ ہے سیاست۔ سیاست یہ فلاں شخص کی سیاست، یہ اس پارٹی کی سیاست، یہ اس ملک کی سیاست، یہ امریکہ و روس کی سیاست، یہ حزب اللہ و ایران  کی سیاست، اسی طرح سماجی اور اجتماعی حلقوں میں آجائیں تو یہ نیتاؤں کی سیاست، یہ علماء اور پنڈتوں کی سیاست ہر ایک سیاست کی بانگ لگا رہا ہے، یہ جدید زمانے کی سیاست، وہ قدیم زمانے کی سیاست، حتی کہ دینی و مذہبی سیاست، خلیفہ  کی سیاست، امام کی سیاست، نبی  کی سیاست  ہر ایک کی زندگی کا ایک اہم پہلو سیاست سے جڑا ہوا ہے  ۔ زیر نظر مقالہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی سیاسی زندگی پر ایک نظر کے عنوان پرمشتمل ہے لہذا  اس سلسلے میں مختصر طور کچھ معروضات پیش کئے جائیں گے لیکن اس سے پہلے مناسب ہے کہ سیاست کے لغوی اور اسلامی نقطۂ نظر سے کیا معنی و مفہوم ہے؟
سیاست کے لغوی معنی: عربی زبان میں مفہوم سیاست کلمۂ "ساس" سے لیا گیا ہے اور  اس کے معنی قوم کے امور کی تدبیر کرنا، انتظام کرنا، جانوروں کی دیکھ بھال کرنا اور ان کو سدھارنا ہے ۔ اسی طرح آیا ہے کہ مصلحت آمیز کاموں کا انجام دینا سیاست کہلاتا ہے  لہذا اگر مصلحت آمیز کاموں میں اجرائے عدالت، احقاق حق اور ابطال باطل کے لئے قیام نہ ہو تو یہ سیاست نہیں ہے بلکہ فریب و دھوکہ بازی  ہے اور ایسا کرنے والا سیاست مدار نہیں بلکہ جبار اور مستکبر ہے ۔اسی طرح آیا ہے کہ مخلوق کے امور کی اصلاح کرنے اور مملکت کے کاموں میں تدبیر کرنے کو سیاست کہتے ہیں اور سیاسی شخص وہ ہے جومملکت کے امور اور سیاسی کاموں میں بصیر ، دانا اور تجربہ کار ہو ۔


سیاست کے اصلاحی اور دینی معنی:سیاست کی اصطلاح مختلف علوم جیسے منطق و فلسفہ میں قدیم زمانے سے مورد بحث رہی ہے اور جدید عصرمیں یہ ایک مستقل علم کے عنوان سے رائج ہے ، اس سلسلے میں بہت سے مطالب پیش کئے جاسکتے ہیں  لیکن یہاں صرف دینی و حدیثی نقطۂ نظر سے سیاست کے اسلامی مفہوم کو بیان کیا جارہاہے۔ قرآن مجید میں تو سیاست کا  لفظ یا اس کے مشتقات بیان نہیں ہوئے ہیں لیکن معنی مفہوم کو مختلف آیات سے درک  کیا جاسکتا ہے جن کو احادیث میں صریحی طور پر پیش کیا گیا ہے چنانچہ  امام علی علیہ السلام ایک مقام پر فرماتے  ہیں کہ: "سیاسۃ العدل ثلاث : لین فی حزم و استقصاء فی عدل و افضال فی قصد"۔ صحیح اور عادلانہ سیاست تین طرح کے امور سے ہوتی ہے؛ دوراندیشی کے وقت نرمی سے کام لینے، عدالت کے جاری کرنے کے دقت سے کام لینے اور میانہ روی کے وقت فضل و بخشش کرنے سے ۔ اسی طرح آیا ہے کہ "جمال السیاسۃ العدل فی الامرۃ والعفو مع القدرۃ "؛ سیاست کی خوبصورتی رہبری میں عدالت سے کام لینے اور قدرت کے وقت معاف کرنے میں ہے ۔ اسی طرح فرمایا ہے  کہ: "حسن التدبیر و تجنب التبذیر من حسن السیاسۃ" ، اچھی تدبیر کرنا اور فضول خرچی سے پرہیز کرنا اچھی سیاست کی نشانی ہے ۔


احادیث سے معلوم ہوتاہے کہ سیاست انسان کے لئے طرز عمل کے ایک مجموعہ کا نام ہے اور اچھی تدبیر، دور اندیشی ، عدالت، نرمی، فضل و بخشش ، عفو  ، منفی امور سے دوری رکھنا اہم ترین نشانیوں میں سے ہے لہذا یہ ایک وسیع میدان ہے جوزندگی کے کسی ایک پہلو یا کچھ خاص تعلقات  اور وظائف تک محدود نہیں ہوتا ہے  اسی  وجہ سے بعض احادیث میں سیاست کو اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے ؛چنانچہ حضرت امام حسن علیہ السلام سے سوال  ہوا کہ سیاست کیا ہے؟ فرمایا:  " اللہ کے حقوق،  زندوں کے حقوق اورمردوں کے حقوق کی رعایت کرنے کا نام سیاست ہے" ۔ یہ حدیث واضح طور پر انسان کی تمام عبادی،  اخلاقی و رفتاری  امور کو شامل ہے اور خداسے لے کر تمام زندوں اور مردوں کے متعلق حقوق کا صحیح اور مناسب طریقے سے بجالانا سیاست کہلاتا ہے۔


یہاں ایک نکتہ قابل غور ہے کہ عام طور پر عرف میں جب سیاست کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا منفی اور متنفر بار سامنے آتا ہے لیکن لغت اور اصطلاح اور احادیث کی روشنی میں جو سیاست کے معنی و مطلب کو پیش کیا گیا ہے اس سے سیاست ایک پاکیزہ اور قابل قدر مفہوم اور معنی کا حامل ہے، آخرکیا وجہ ہے جس کی وجہ سے استعمال عرف اور لسان لغت و شرع میں یہ فرق نظر آتا ہے ؟ غور کرنے پر معلوم ہوتا ہے سیاست کے اصلی معنی اور بعض سیاستمداروں اور سیاست کے علمبرداروں کے عمل میں خلط ہوگیا ہے، جب بعض حکمرانوں اورقوم کے رہبروں اور مادی و شیطانی سیاست کے پیروں کاروں کی سیاست کو دیکھ کر اس کا مطلوب درک کیا جاتاہے تو سیاست کے اصلی مفہوم میں کوسوں دوریاں نظر آتی ہیں،  لوگوں نے اپنی مصلحت  اور فوائد کے مطابق عمل کرنے کو سیاست سمجھا ہے لہذا ہر طرح کے لوٹ کسوٹ، دھوکہ دھڑی، چالاکیوں، ظلم و ستم و جھوٹ و فریب سے کام نکال لینے  کو سیاست کا نام دے دیا، ہوسکتا ہے یہ سیاست ہو لیکن یہ سیاست کا منفی پہلو ہے چنانچہ امیرالمومنین علی علیہ السلام نے ایک مقام پر اس طرح کی سیاست کے حوالے سے فرمایا ہے کہ: "بئس السیاسۃ الجور"  ، ظلم و جور سب سے بری سیاست ہے۔ اسی طرح جب معاویہ کے حوالے سے آپ کے سامنے ذکر ہوا کہ وہ بہت بڑا سیاسی آدمی ہے تو آپ نے فرمایا: "خدا کی قسم معاویہ مجھ سے بڑا سیاسی نہیں ہے لیکن وہ چالاکیاں کرتا ہے ، دھوکہ بازی سے کام لیتا ہے اور گناہ کا مرتکب ہوتا ہے اگر چالاکی بری عادت نہ ہوتی تو میں لوگوں میں سب سے بڑا سیاسی ہوتا" ۔ ابن ابی الحدید اسی بیان کی روشنی میں سیاست کے منفی اور مثبت پہلو کو بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ "اگر سیاست کو کسی بھی طرح کے حیلے اور مجاملے اور حدود الہی کو معطل کرکے رعایا کے قلوب کی تالیف کرنے کے معنی میں لیا جائے تو معاویہ سب سے بڑا سیاسی تھا لیکن اگر سیاست کو حقیقی معنوں میں یعنی اسلامی دستور اور احکام کی پابندی کے ساتھ ساتھ عدالت کی بنیاد پر امور کی تدبیر کرنے کے معنی میں لیا جائے تو ہر مسلمان کو ایسی سیاست کو استعمال کرنا چاہئے اور اس طرح کے سب سے بڑے سیاسی صرف اور صرف حضرت علی علیہ السلام تھے" ۔


اسی جگہ پر یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام عین سیاست ہے اور سیاست اسلام سے جدا نہیں ہے، جس نے دین اسلام کو سیاست سے جدا سمجھا ہے وہ جاہل ہے ، اس نے صحیح معنوں میں اسلام اور سیاست کو پہچانا ہی نہیں ہے  ۔ اور خدا کی قسم پورا اسلام سیاست ہے، لوگوں نے اسلام کو بدنام کیا ہے ۔ لیکن منفی سیاست کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، ہاں اسلامی لبادے میں مسلمانوں کے طرز عمل، طرز حکومت اورانفرادی اور اجتماعی طور طریقوں کو اسلام کا نام دینا بالکل غلط ہے بلکہ حقیقی اسلام اور اسلام کے الہی و آسمانی نمائندوں کے عمل کو دیکھنا چاہئے جن کو اللہ نے سیاست اور تدبیر، مخلوق کی ہدایت و خدمت کی تعلیم دی ہے ، ان کی سیاست عین اسلام ہے، چنانچہ مختلف روایتوں میں پیغمبروں  اور آخر نبی حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو سیاست کے عطا کئے جانے کا ذکر آیا ہے ،  اسی طرح زیارت جامعہ کبیرہ میں ہمارے معصوم اماموں کے صفات میں سے ایک صفت یہ بھی ذکر ہوئی ہے کہ:  "انتم ساسۃ العباد" کہ آپ حضرات سیاسی  بندے ہوں۔  اسی طرح آیا ہے کہ :  "الامام عارف بالسیاسۃ"  امام سیاست سے اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ یہاں زیر نظر مقالہ چونکہ حضرت امام رضا علیہ السلام کی سیاسی زندگی کے بیان پر مشتمل ہے لہذا چند نمونے پیش خدمت ہیں:


امام رضا علیہ  السلام کی سیاسی زندگی پر ایک نظر:
ماہ ذی قعدہ وہ مہینہ ہے جس میں حضرت امام رضا علیہ السلام کی مبارک ولادت ہوئی ہے، آپ کی ولادت11 تاریخ،سن 148  ہجری میں شہر مدینہ میں ہوئی ، اور ایک روایت کے مطابق اسی مہینہ کی 23 ویں تاریخ کو آپ کی شہادت واقع ہوئی۔ آپ کے والد امام موسی ابن جعفر اور مادر گرامی کا نام حضرت ام البنین یا تکتم یا نجمہ تھا ،  یہ تینوں نام تاریخ میں بیان ہوئے ہیں۔ آپ کی والدہ ایک با فضیلت خاتون تھیں ، آپ کی والدہ کے بارے میں  امام رضا  علیہ السلام کی دادی حضرت حمیدہ خاتون کابیان ہے کہ میں نے رسول خدا ؐ کو خواب میں دیکھا آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:اے حمیدہ ! یہ نجمہ تمہارے بیٹے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہے کہ جس کی گود میں عنقریب اہل زمین میں سے بہترین فرزند آئے گا،   اس کے بعد جناب حمیدہ خاتون فرماتی ہیں کہ میں نے نجمہ خاتون کو موسی ابن جعفر کو بخش دیا اور جب امام رضا علیہ السلام  دنیا میں آئے تو نجمہ خاتون کا نام طاہرہ رکھا ۔


امام رضا علیہ السلام بہت سے فضائل و مناقب کے مالک تھے ،   آپ کے   والد گرامی حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام کی 35 سالہ امامت کی پوری زندگی مشکلات و مختلف حادثوں کے ساتھ گزری تھی  اورآپ کو زیادہ تر وقت  کے حاکم ہارون رشید کے قید خانے میں رکھا گیا  تھا اس دوران  امام رضا علیہ السلام اپنے والد کے قید خانے کی زندگی کے دوران پوری طرح سے معاون و حمایت کرتے رہے اور تمام غموں و مشکلات میں اپنے بابا کے ہم غم و شریک تھے، کبھی بھی  قدرت طلب و حکومت خواہوں کے آگے نہیں جھکے اور لوگوں کو شدت کے ساتھ ظالم خلیفہ کی مدد کرنے سے روکتے رہے۔ اور چونکہ آپ کےبابا زیادہ تر قیدخانے میں رہے لہذا گھر کا سارا انتظام و دیکھ بھال کا ذمہ ، اسی طرح اپنے چاہنے والوں کی دینی، مذہبی اور معاشرتی ضرورتوں کو پورا کرنے اور رہنمائیوں کا کام آپ ہی کے سپرد تھا  جن کو آپ نے بحسن خوبی انجام دیا تھا۔


آپ کی امامت کا رسمی آغاز سنہ 183 ہجری سے 203 ہجری تک جاری رہا، جس میں سے دس سال ہارون الرشید  اور اس کے بعد 5 سال محمد امین اور آخر کے 5 سال  مامون عباسی کی غاصب حکومت کے دور میں گزرےتھے۔ عباسی حکمرانوں کی سیاست و حکومت کی بنیاد بھی  بنی امیہ کی طرح شیطانی طریقہ کاروں پر تھی چنانچہ صاحب تاریخ الخلفا لکھتے ہیں کہ  "بنی امیہ کے ہاتھوں سے اقتدار نکل  کر بنی عباس کے ہاتھوں میں پہونچ گیالیکن یہ تبدیلی اپنے ساتھ خونریزیاں لے کر آئی عراق و خراسان و جزیرہ شام میں بے شمار علماء قتل کئے گئے اور انہوں نے جتناچاہا ظلم و ستم کیا"۔

یہی حال مامون کے زمانے کا بھی تھا  جن کی حکومت سے امام رضا علیہ السلام کا زیادہ سروکار رہا اور اسی زمانے میں امام کی سیاسی زندگی کا ظہور و بروز ہوا۔ اس نے بھی  حکومت و سلطنت حاصل کرنے کےلئے بے شمار حیلے کئے، اپنے ہی بھائی کے خون سے ہاتھ رنگین کرکے حکومت پر قابض ہوگیا، اپنے وزیر و فوجی سربراہ کا قتل کیا اور جب چاروں طرف سے علویوں کے قیام اور مختلف شورشوں میں گرفتار ہوگیا تو اس دنیا طلب اورموقع پرست خلیفہ مامون نے امام رضا علیہ السلام کو زبردستی اپنا جانشین بنایااور قبول نہ کرنے کی صورت میں قتل کرنے کی دھمکیاں دینے لگا جسکے جواب میں امام نے فرمایا:

"مجھے خدا نے حکم دیا ہے کہ میں اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالوں اگر تم مجبور کرتے ہو تو اس شرط پر تمہاری بات قبول کرتاہوں کہ خلافت کے کسی بھی معاملہ میں جیسے کسی کو ہٹانا، کسی کو معین کرنا وغیرہ میں کوئی دخالت نہیں  کروں گا، صرف مشورہ دے سکتا ہوں" ۔
اس طریقہ سے سن 201 ہجری میں آپ کو مامون کا ولی عہد بنایا گیا ہےاور اس کےبعد امام نے اپنی امامت فرائض انجام دینا جاری رکھا اور خداوندعالم کے فضل و کرم سے مختلف مذاہب کے علماء اور عوام کے درمیان روز بروز آپ کی عظمت آشکاری ہوتی گئی ، جس سے خوفزدہ ہوکر مامون نے وطن سے دور غربت کے عالم میں آپ کو زہر دے کر شہید کردیا۔آپ مشہد مقدس میں دفن ہوئےجہاں آج شاندار روضہ بنا ہوا ہے اور تمام شیعیان جہان اور عاشقان اہلبیتؑ کے لئے ایک نورانی مرکز ہے جہاں سے ہزاروں برکتیں زائرین کے نصیب ہوتی ہیں۔


امام رضا علیہ السلام کی سیاست  کے ہدایتی پہلو:
امام رضا علیہ السلام  کی سیاسی زندگی اور ولی عہدی سے مربوط واقعات  کے سلسلے میں بہت کچھ لکھا جا چکا ہے اور مختلف کتابوں اور تحقیقات اور مقالوں میں اس مسئلہ کو پیش کیا گیا ہے اور مسلسل کیا جا رہا ہے لہذا یہاں پر تفصیلی تذکرے کے بجائے صرف دو  اہم کاربردی اور عملی نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جو امام کی سیاسی زندگی میں نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
1- ظالم  و غاصب سے مقابلہ:
قرآن کریم  اور دیگر اسلامی تعلیمات میں ظلم و ظالم، حقوق فردی، اجتماعی، فرہنگی، سیاسی، دینی وغیرہ پر ڈاکہ ڈالنے والوں سے مقابلے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے اور الہی رہبروں اور اماموں پر  اس کو اہم ترین ذمہ داری کے عنوان سے رکھا ہے اسی وجہ سے حکومت الہیہ کے قیام اور اس کی راہ میں آنے والی تمام تر رکاوٹوں سے مقابلہ کرنا ضروری قرار دیا گیا ہے ، امام رضا علیہ السلام کی زندگی کے مختلف واقعات سے بھی ہمیں منصب الہی   خلاف قدبلند کرنے والے ظالموں اور غاصبوں سے مقابلہ کے حوالے سے بہت سے واقعات اور فرامین ملتے ہیں، جن کے تفصیلی ذکر کا موقع نہیں ہے۔ لیکن  اپنے بابا کے دور حیات کے سیاسی کارنامے، مدینہ سے جبرا بلانے پر لوگوں کو مختلف طریقوں سے مامون کے مظالم سے آگاہ کرنا، نیشاپور میں ولایت و امامت کی دعوت دینا، ولی عہدی کی پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کرنا، زبردستی اور قتل کی دھمکی پر مختلف شرائط کا پیش کرنا ، غاصب حکومت کے کسی سیاسی کام میں دخالت نہ کرنا، شاہی طرز عمل سے دوری اختیارکرنا یہ سب وہ چیزیں تھیں جن  کے ذریعہ آپ نے مامون جیسے مکار اور ظالم شیطانی سیاست کے نمائندے  سے مقابلہ کیا اور اس کے چہرے سے وقتا فوقتا نقاب اتارکر لوگوں کے سامنے پیش کرتے رہے۔


2- الہی وظیفہ  پر عمل :
امام رضا علیہ السلام نے مامون کی مکارانہ سیاست  کو بے کاراور بے اثر کرنے کے لئے اسی کے بنے ہوئے جھال کا کاٹتے رہے اور اپنے الہی وظیفہ پر عمل پیرا رہیں، اسی لئے آپ ولی عہدی کی تمام مدت میں  مختلف مواقع اور فرصتوں سے استفادہ کیا،  اخلاق اسلامی کی نمائش کی، امامت و ولایت اور مسلمانوں اور شیعوں کے درمیان عاطفی روابط کو مستحکم کیا،  سیاسی عقلانیت کی تقویت بخشی، بے بصیر چاہنے والوں کو بصیرت اور دشمن شناسی کی دولت باٹی، مصلحت شناسی اور اجتماعی مصلحت کو انفرادی مصلحتوں پر ترجیح دینے کے سبق پڑھائے۔علمی مناظروں اور مباحثوں میں حقانیت معارف اہل بیت علیہم السلام اور فضائل و مناقب کے چشموں سے عاشقوں کو سیراب اور منافقوں اور دشمنوں کو ذلیل  و رسوا کیا۔
مذکورہ باتوں کو تاریخی منابعوں سے مستدل و مستند کیا جاسکتا ہے لیکن یہاں گنجائش نہیں ہے بس خلاصہ کے طور پر کہا جاسکتا ہے کہ حقیقی اسلامی سیاست کا مظاہرہ جو سیاست علوی سے شروع ہوئی اور رفتہ رفتہ آپ کی نسل سے معصوم اماموں نے اس کے جلوے دکھائے، آٹھویں امام حضرت  علی ابن موسی الرضا کے زمانے میں ولی عہدی کے موقع پر مامون جیسے مکارترین شیطانی سیاست کے نمائندے کے  دور خلافت میں یہ علوی سیاست پھر سے ایک علی کے ذریعہ رونق افروز ہوئی اور دعا ہے کہ خداوند اپنے آخری نمائندے کو جلد بھیج دے تاکہ ایک بار  پھر اب جبکہ   دنیا کے تمام ظالموں اور ستمکاروں اور شیطانی نمائندوں کی سیاستیں ہار چکی ہیں،   دنیا سیاست علوی کی معراج کا مشاہدہ کرے ۔ آمین۔


آخر میں امام رضا علیہ السلام کی ولادت کے ایام سے منسوب دہہ کرامت کے مبارک موقع کے حوالے سے خود امام رضا علیہ السلام ہی کی حدیث سے مقالہ کو سرانجام پہونچایا جاتا ہے، کہ امام فرماتے ہیں:
" انَّ زُوّارَ قَبری لاَ کرَمُ الوُفوُدِ عَلَی اللِه یَومَ القِیامةِ، وَ ما مِن مُؤمِنٍ یَزُورُنی فَیُصیبُ وَجهَهُ مِنَ الماءٍ، الاّ حَرَّمَ اللهُ تَعالی جَسَدهُ عَلی النّارِّ" ؛
 میری قبر کے زائر  عزیز  ترین گروہ  میں سے ہیں جو قیامت کے دن خداوندعالم کی بارگاہ میں حاضر  ہوں گے، کوئی بھی مومن ایسا نہیں ہوگاجو میری زیارت کرے اور اس کے چہرے پر پانی پڑے مگر یہ کہ خدا وندعالم اس کے بدن پر دوزخ کی آگ کو حرام کردے گا۔