کیا تم راہِ حسینی کا انتخاب کرتے ہو؟
تاریخِ عالم میں اگرچہ کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں مختلف قسم کی تحریکوں اورقیام کا ذکر ملتا ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو تحریکِ کربلا اور قیامِ حسین ابن علی جیسا کوئی دوسرا قیام نظر نہیں آتا کہ جس نے یزید و یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے شکستِ فاش دے دی امام عالی مقام کے قیام کا مقصد حصولِ اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ امت تھا
تاریخِ عالم میں اگرچہ کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں مختلف قسم کی تحریکوں اورقیام کا ذکر ملتا ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو تحریکِ کربلا اور قیامِ حسین ابن علی جیسا کوئی دوسرا قیام نظر نہیں آتا کہ جس نے یزید و یزیدیت کو ہمیشہ کے لئے شکستِ فاش دے دی امام عالی مقام کے قیام کا مقصد حصولِ اقتدار نہیں بلکہ اصلاحِ امت تھا آج تک تاریخِ انسانیت میں جتنے بھی قیام برپا ہوئے ان میں سے اکثر کا مقصد حصولِ اقتدار،ظاہری جاہ وحشم، ذاتی عیش و عشرت اور آرام طلب زندگی پہلی ترجیح رہے لیکن نواسہ رسول امام حسین ابن علی کا قیام ایسا قیام ہرگز نہیں تھا امام نے مدینہ سے مکہ کی روانہ ہوتے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کو یوں وصیت فرمائی:
بسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ھٰذٰا مٰا اَوْصٰی بِہِ اَلْحُسَیْنُ بْنُ عَلِیٍّ اِلٰی اَخیہِ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَنَفِیَّةِ اَنَّ الْحُسَیْنَ یَشْھَدُ اَنْ لاٰ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ وَحْدَہُ لاٰ شَریکَ لَہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہُ وَ رَسُوْلُہُ جٰاءَ بِالْحَقِّ مِنْ عِنْدِہِ وَاَنَّ الْجَنَّةَ حَقٌّ وَ النّٰارَ حَقٌّ وَ السّٰاعَةَ آتِیَةٌ لاٰ رَیْبَ فِیْھٰا وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ وَ اِنّی لَمْ اَخْرُجْ اَشَرًا وَلاٰ بَطَراً وَلاٰ مُفْسِدًا وَلاٰ ظٰالِماً وَ اِنَّمٰا خَرَجْتُ لِطَلَبِ الْإِصْلاٰحِ فی اُمَّةِ جَدّی (ص) اُریدُ اَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَ اَنْھٰی عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اَسِیْرَ بسیرَةِ جَدّی وَ اَبی عَلَیِّ بْنِ اَبیطٰالِبٍ فَمَنْ قَبِلَنی بِقَبُولِ الْحَقِّ فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِالْحَقِّ وَمَنْ رَدَّ عَلَیَّ ھٰذٰا اَصْبِرُ حَتّٰی یَقْضِیَ اللّٰہُ بَیْنی وَ بَیْنَ الْقَوْمِ وَ ھُوَ خَیْرُ الْحٰاکِمینَ وَ ھٰذِہِ وَصِیَّتی اِلَیْکَ یٰا اَخی وَمٰا تَوْفیقی اِلاّٰ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ اُنیبُ۔
بسم الله الرحمن الرحیم۔ یہ وصیت حسین ابن علی کی طرف سے بھائی محمد حنفیہ کے نام۔ حسین توحید و یگانگت ِپروردگار کی اور اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ خدا کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد خدا کے عبد اور اس کے رسول ہیں اور آپ آئین حق (اسلام) خدا کی طرف سے لوگوں کے لئے لائے ہیں اور یہ کہ بہشت و دوزخ حق ہے۔ روزِ جزا بغیر کسی شک کے وقوع پذیر ہوگا اور خداوند عالم تمام انسانوں کو اس دن دوبارہ زندہ کرے گا۔
میں خود خواہی یا سیر و تفریح کے لئے مدینہ سے نہیں نکل رہا اور نہ ہی میرے سفر کا مقصد فساد اور ظلم ہے بلکہ میرے اس سفر کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اور میں چاہتا ہوں کہ اپنے اس سفر کے دوران امت کے مفاسد کی اصلاح کروں۔ اپنے جد امجد رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قوانین اور ان کی سنتوں کو زندہ کروں اور اپنے پدر بزرگوار علی کا راستہ اور ان کا طرز عمل اپناؤں۔ پس جو شخص یہ حقیقت قبول کرتا ہے (اور میری پیروی کرتا ہے) اس نے گویا راہ خدا کو قبول کیا اور جو شخص بھی میرے اس ہدف اور میری اس آرزو کو رد کرتا ہے (میری پیروی نہیں کرتا) میں صبر و استقامت کے ساتھ اپنا راستہ اختیار رکھوں گا یہاں تک کہ خداوند عالم میرے اور ان افراد کے درمیان فیصلہ کرے اور وہ بہترین فیصلہ کرنے والا اور حاکم مطلق ہے۔ بھائی یہ میری وصیت آپ کے لئے ہے اور خداوند تعالیٰ سے توفیق کا طلبگار ہوں اور اسی پر توکل کرتا ہوں اور اسی کی طرف میری بازگشت ہے۔
اپنے اس وصیت نامے میں امام حسین علیہ السلام نے اپنے قیام کو واضح طور پر پیش کر کے یہ پیغام دیا ہے کہ جب کسی معاشرے میں فسق و مجور پھیلنے لگے دین کے نام پر بگاڑ پیدا کیا جانے لگے تو وہاں دیندار طبقے کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ آگے آئیں اور قربانی دیں امام بھی یزید کی بیعت کر کےاپنی اور اپنے بچوں کی زندگی بچا کر آرام دہ زندگی بسرکرسکتے تھے لیکن امام نے تحفظِ اسلام کی خاطر اپنا گھربار لٹا دیا یزید ملعون شریعتِ اسلام میں تحریف چاہتا تھا امام اگر اسکی بیعت کر لیتے تو یہ بیعت یزیدی فتنے پر مہرِ تصدیق بن جاتی جب یزید کی طرف سے امام عالی مقام کو بیعت کا پیغام ملا تو امام علیہ السلام نے ایک عظیم الشان اور تاریخی جملہ ارشاد فرمایا
"مثلی لا یبایع مثلہ" امام علیہ السلام نے فرمایا "مجھ جیسا تجھ جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا" امام فرما سکتے تھے میں تیری بیعت نہیں کر سکتا لیکن امام نے رہتی دنیا تک کے لئے تمام عالمِ انسانیت کو یہ پیغام دے دیا کہ حسین جیسا کردار کبھی یزید جیسے کردار کی بیعت نہیں کر سکتا ، مولانا ابوالاعلی مودودی سے کسی نے پوچھا کہ جب سب نے یزید کی بیعت کر لی تھی تو امام نے کیوں بیعت نہیں کی تو ابوالاعلی مودودی نے جواب میں فرمایا کہ آپ کا سوال درست نہیں سوال کو یوں درست کریں کہ جب نواسہ رسول نے یزید کی بیعت نہیں کی تھی تو باقی لوگوں نے کیوں بیعت کی؟
امام حسین علیہ السلام نے تہذیبِ اسلامی کے تحفظ کے لئے جدوجہد کی جب کہ یزید اس تہذیب کو مٹانے کے درپے تھا امام عالی مقام نے فتح و شکست کے معیارات کو بدل کر رکھ دیا جان، مال اور اولاد کی قربانی دے کر امام نے تا قیامِ قیامت یہ بتا دیا کہ اسلامی تہذیب کس قدر گراں بہا سرمایہ ہے آج دنیا کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں جہاں بھی ظلم کے خلاف جدوجہد ہوئی یا ہو رہی ہے وہاں حسین ابن علی ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتے ہیں آج فلسطینی اور کشمیری حسینی کردار پہ عمل پیرا ہو کر یزیدِ وقت کے خلاف نبرز آزما ہیں۔
حقیقت میں دیکھا جائے تو میدانِ کربلا میں دو شخصیات کی نہیں بلکہ دو نظریات کی جنگ ہوئی اور اسلام کو جو دھچکا یزیدی حکومت کے فتنوں سے لگا وہ اتنا شدید تھا کہ اگر اسلام کے علاوہ کوئی اور مذہب ہوتا تو وہ مکمل طور پر تباہ وبرباد ہو جاتا اسلام کی خوشبختی مگر یہ تھی کہ اس کے دامن میں پیامبر گرامی اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گود میں پروان چڑھنے والا وہ شخص موجود تھا جس نے آگے بڑھ کر یزید کی باطل حکومت کو للکارااور اسلام مخالف نظریات کا گلا گھونٹ کر اسلام کو ابدی حیات عطا کر دی یوں بقائے اسلام کا ضامن حسینی نظریہ اپنی پوری شان و شوکت کے ساتھ کامیاب و کامران ہوا جب کہ یزید و یزیدیت اپنے باطل ارادوں اور باطل نظریات کے ساتھ غرق ہو گئے۔
قارئین محترم آج کے اس پُرآشوب دور میں اس امر کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے کہ نواسہ رسول امام حسین علیہ السلام کے قیام کے مقاصد کو سمجھ کر آگے بڑھا جائے یزید فقط 1400 سال پہلے کے ایک ظالم و جابر حکمران کا نام نہیں بلکہ یہ ہر دور کا وہ کردار ہے جو ہر صدی ہر سال اور ہر گھڑی چہرے بدل بدل کر تمہارے سامنے آتا رہے گا کبھی تمہارا سر نوکِ سناں پہ بلند کرکے اپنی بادشاہت کا اعلان کرے گا کبھی کھوپڑیوں کے مینار تعمیر کر کے کبھی بچوں کو مائوں کے سامنے تہ تیغ کر کے کبھی شیعہ سنی کے نام پہ تفرقہ پیدا کرکے کبھی امن کے سفیروں کو ڈرون حملوں میں ٹکڑے ٹکڑے کروا کر اپنی جھوٹی فتح کا اعلان کرتا رہے گا ہر دور کا یہ یزید تم سے حق سچ اورآزادی چھیننے کی کوشش کرتا رہے گا مگر
کیا تم راہِ حسینی کا انتخاب کرتے ہو؟؟؟
تحریر: محمد ثقلین واحدی