کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے قتل عام پر پولیس رپورٹ مسترد


عدالت نے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ اور لاپتہ افراد سے متعلق رپورٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے اسے مسترد کردیا۔

تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، سپریم کورٹ نے ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگز اور لاپتہ افراد پر جمع کروائی گئی پولیس رپورٹ کو غیر اطمینان بخش قرار دے دیا اور اس سلسلے میں 2 ہفتوں کے اندر ایک جامع رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی۔

چیف جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل 3 رکنی بینچ نے سڑکوں پر نان کسٹم پیڈ گاڑیاں چلانے، ہوائی فائرنگ اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والی دیگر غیر قانونی کارروائیوں کا نوٹس لے کر اس سلسلے میں قانونی کارروائی کا حکم دیا۔

سپریم کورٹ نے یہ ہدایات کوئٹہ رجسٹری میں ہزارہ افراد کی ٹارگٹ کلنگز سے متعلق از خود نوٹس اور لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے دائر درخواست کی سماعت میں دیں۔

مذکورہ رپورٹ کرائم برانچ کے سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) انویسٹیگیشن محمد اکبر رئیسانی سے جمع کروائی تھی۔

چیف جسٹس گلزار احمد نے تاسف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'آپ ایک پی ایس پی افسر ہیں اور آپ کو معلوم نہیں کہ تفتیش کس طرح کی جاتی ہے، آپ چاہتے ہیں کہ شکایت گزار آپ کے پاس آئے بجائے اس کے کہ آپ خود جا کر تفتیش کریں اور شواہد اکٹھے کریں۔

عدالت نے لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے میں ناکامی پر پولیس اور متعلقہ حکام کی سخت سرزنش کی اور ایس ایس پی کوئٹہ (آپریشنز) غلام اصغر سے لاپتہ افراد کے حوالے سے دریافت کیا۔

عدالت نے پولیس انکوائری رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ تمام افسران کو ان کے عہدوں سے برطرف کیا جانا چاہیئے۔

سماعت کے دوران لاپتہ افراد کے رشتہ داروں اور اہلِ خانہ کے علاوہ داخلہ اور قبائلی امور کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری حافظ عبدالباسط، رکن صوبائی اسمبلی عبدالقادر نائل اور سینئر پولیس عہدیدار پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے بلوچستان پولیس کو لاپتہ افراد بازیاب کرانے اور عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس افسران نہیں جانتے کہ تفتیش کس طرح کی جاتی ہے، کیسز 2017 اور 2018 میں رپورٹ ہوئے تھے لیکن لاپتہ افراد کی بازیابی کے سلسلے میں پولیس کی کارکردگی صفر ہے۔

چیف جسٹس نے ایس ایس پی کوئٹہ پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ پولیس کا فرض یہ ہے کہ لاپتہ افراد کے مقدمات درج کرے لیکن اپنے فرائض اطمینان بخش طریقے سے انجام دینے میں قاصر رہی۔

ایس ایس پی آپریشنز نے عدالت کو بتایا کہ ایکسائیز ڈپارٹمنٹ اور ایف بی آر کو خط بھجوا دیا گیا ہے جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس کا کام جائے وقوع پر جا کر تفتیش کرنا ہے خطوط اور نمائندے بھجوانا نہیں ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 'پولیس کو اپنے محکمے کی ذمہ داریوں اور فرائض کا علم نہیں، آپ لوگ خود کو اعلیٰ مقامات پر پہنچانے اور اعلیٰ عہدے حاصل کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں'۔

سپریم کورٹ کے بینچ نے کہا کہ جس شخص نے انکوائری رپورٹ تیار کی اسے اس کے عہدے سے برطرف کر کے گھر بھیج دینا چاہیئے۔

عدالت نے سڑکوں پر اسمگل شدہ گاڑیاں چلانے، ہوائی فائرنگ اور بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر ہونے والیے غیر قانونی کاموں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔