مغربی دنیا توہینِ رسولؐ کے ذریعہ اسلام کی عالمگیریت کو محدود کرنا چاہتی ہے: علامہ امین شہیدی


لوگوں کو مسیحیت سے اسلام کی طرف منتقل ہونے سے روکنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے

اُمتِ واحدہ پاکستان کے سربراہ علامہ محمد امین شہیدی نے فرانسیسی صدر امانوئل میکرون کے توہین آمیز خاکوں پر حالیہ موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اِس وقت پوری دنیا میں تہذیبوں کی جنگ جاری ہے۔ ایک طرف مغربی تہذیب ہے جو لُچر پن کی علامت ہے اور دوسری طرف اسلام کی غالب تہذیب ہے جس سے مغربی دنیا کو سب سے زیادہ خطرہ ہے، اسی خطرہ کے پیشِ نظر اہلِ مغرب دو طریقوں سے اپنا ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلامی معاشرہ میں اُن لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جائے جو فرقہ واریت کی آڑ میں اصحابِ رسول یا اہلِ بیت علیہم السلام کی توہین کریں اور اِس طرح عام لوگوں کا عقیدہ متاثر ہو۔ نتیجتا اسلامی معاشرہ انتشار کا شکار ہوتا ہے اور اِس طرح ہماری روشن تہذیب کا تاریک چہرہ دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔
دوسرا طریقہ خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اسلامی مقدسات پر حملہ کرنا ہے تاکہ دینِ اسلام کا منفی تاثر لوگوں پر پڑے اور مغرب کی دم توڑتی ہوئی تہذیب کو باقی رکھا جاسکے۔ چونکہ امریکہ اور دیگر یورپی ممالک میں اسلام تیزی سے پھیل رہا ہے، مغربی معاشرہ اپنی گمراہ کن تہذیب کی وجہ سے معاشرے میں پھیلے ہوئے اضطراب کے حل کی تلاش میں ہے اور اُسے اطمینانِ قلب کا حصول صرف اور صرف اسلام کی پناہ میں نظر آ رہا ہے۔ لہذا لوگوں کو مسیحیت سے اسلام کی طرف منتقل ہونے سے روکنے کے لئے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ لوگ اسلام کے علمبردار سے متنفر ہو کر اِس دین سے دوری اختیار کریں۔
انہوں نے کہا یہ منصوبہ صرف فرانس کا نہیں، بلکہ تمام مغربی ممالک ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ یہ منصوبہ پرانا ہے لیکن اِس بار نئی بات یہ ہے کہ فرانس کی حکومت نے سرکاری سطح پر توہینِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حمایت کی ہے۔ اِس سنجیدہ صورتحال میں مسلم اُمہ کے تمام حکمرانوں کا ردِعمل حوصلہ افزا نہیں ہے، اُن سے صرف زبانی بیان بازی کی توقع کی جاسکتی ہے۔ عقل کا تقاضا یہ ہے کہ فرانسیسی مصنوعات کے ساتھ امریکی، برطانوی اور یہودی مصنوعات کا بھی مسلم ممالک میں بائیکاٹ کیا جائے۔ جب مغربی ممالک کی معیشت کمزور ہوگی تو وہ خود بخود ایسے ہتھکنڈوں سے پیچھے ہٹ جائیں گے۔