گلگت بلتستان انتخابات، اب تک کیا ہوا؟


گلگت بلتستان میں پندرہ نومبر کو عام انتخابات ہو رہے ہیں، گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ کچھ نیا منظرنامہ ہے

گلگت بلتستان میں پندرہ نومبر کو عام انتخابات ہو رہے ہیں، جوں جوں الیکشن کی تاریخ قریب آرہی ہے، جی بی کا سیاسی منظرنامہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے، گذشتہ انتخابات کے مقابلے میں اس مرتبہ کچھ نیا منظرنامہ ہے، خلاف توقع پیپلزپارٹی جارحانہ اننگز کھیل رہی ہے، تحریک انصاف دفاعی پوزیشن میں ہے اور یہ بات طے ہے کہ گلگت بلتستان کے انتخابات میں اصل مقابلہ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا ہی ہوگا۔ جی بی میں سابقہ ادوار میں وفاقی حکمران جماعت کو ہمیشہ سے ہی نفسیاتی برتری رہی ہے، تاہم بعض مواقع پر خلاف توقع نتائج بھی سامنے آئے۔ مثال کے طور پر 1994ء میں گلگت بلتستان میں پہلی بار جماعتی بنیادوں پر انتخابات ہوئے، اس وقت وفاق میں پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، تاہم گلگت بلتستان میں تحریک جعفریہ نے برتری حاصل کی، بعد میں پی پی کے ساتھ اتحاد کے نتیجے میں سابق گورنر مرحوم پیر کرم علی شاہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹو بن گئے۔ اس کے بعد 2004ء میں ہونے والے انتخابات میں دو بڑی جماعتوں نے برابر سیٹیں لی تھیں تو آزاد امیدوار حاجی فدا محمد ناشاد نے کامیاب ہونے کے بعد تحریک جعفریہ میں شمولیت اختیار کی اور وہ ڈپٹی چیف ایگزیکٹو بن گئے۔

یوں گلگت بلتستان میں تحریک جعفریہ کی حکومت بن گئی۔ مشرف دور میں نون لیگ کے سارے لوگ (ق) میں تبدیل ہوگئے۔ اس کے بعد سے اب تک جو جماعت وفاق میں حکمران رہی ہے، وہی جماعت جی بی پر بھی حکومت کرتی رہی ہے۔ 2009ء کے انتخابات میں پی پی کو اکثریت ملی کیونکہ وفاق میں بھی زرداری کی حکومت تھی، جبکہ 2015ء میں نواز شریف کی حکومت کے دوران گلگت بلتستان میں ہونے والے انتخابات میں نون لیگ بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی۔ اب 15 نومبر کو جی بی کے عام انتخابات ہو رہے ہیں اور وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے تو کیا حسب سابق اس مرتبہ بھی جی بی میں تبدیلی سرکار ہی آئے گی؟ عام طور پر ایسا خیال ہی کیا جاتا ہے، تاہم اس بار کچھ انہونی بھی ممکن ہے۔ مجموعی طور پر رائے عامہ تحریک انصاف کے حق میں ہموار ہوتی نظر نہیں آرہی، یہی موضوع آج کل گلگت بلتستان کے گلی محلوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ تو کیا ایسا ممکن ہے کہ وفاقی جماعت کو خلاف توقع جی بی کے الیکشن میں غیر متوقع نتائج کا سامنا کرنا پڑیگا؟ حکمران جماعت تحریک انصاف کے ساتھ آخر مسئلہ کیا ہے؟ کئی وجوہات ہیں، جن پر بات ہوسکتی ہے اور متوقع منظرنامے کی پیشگوئی بھی کی جا سکتی ہے۔

 تحریک انصاف
گلگت بلتستان میں تحریک انصاف کی دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ الیکشن سر پر ہونے کے بائوجود بھی ابھی تک کوئی مرکزی عہدیدار گلگت بلتستان نہیں آیا، اس کے مقابلے میں جب دو ہزار پندرہ کے الیکشن ہونے والے تھے تو سابق وفاقی وزیر امور کشمیر برجیس طاہر نے گلگت بلتستان میں مستقل کیمپ لگا لیا تھا۔ اس وقت جی بی میں سیاسی جوڑ توڑ کا ماسٹر مائنڈ برجیس طاہر کو جانا جاتا تھا، لیکن اب نئے الیکشن ہو رہے ہیں تو ابھی تک کسی بھی وفاقی وزیر یا پارٹی عہدیدار نے گلگت بلتستان آکر پارٹی کو منظم کرنے یا کوئی بھی لائحہ عمل مرتب کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ صرف ایک کام یہ کیا کہ اسلام آباد میں ٹکٹ کی منڈی لگائی گئی اور نون لیگ کے تین چوتھائی الیکٹیبلز کو اپنے ساتھ ملا کر ٹکٹ تھما دیا گیا۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران کئی حیران کن پہلو بھی سامنے آئے۔ موجود سپیکر فدا محمد ناشاد جو گذشتہ انتخابات میں نون لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑے اور کامیاب ہوئے، جس کے بعد وہ سپیکر بھی بن گئے۔ تحریک انصاف کے ٹکٹ کے اعلان تک فدا محد ناشاد نے نون لیگ چھوڑنے یا تحریک انصاف میں شامل ہونے کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا، تاہم پی ٹی آئی نے پارٹی میں شامل ہونے سے پہلے ہی فدا ناشاد کو ٹکٹ جاری کر دیا۔

اسی طرح سکردو حلقہ چار روندو میں پی پی کے امیدوار وزیر حسن جنہوں نے پی پی ٹکٹ کیلئے درخواست بھی دی تھی، کو بھی اچانک تحریک انصاف کا ٹکٹ تھما دیا گیا۔ اس طرح تحریک انصاف نے نون اور پی پی کے اہم ترین الیکٹیبلز کو ٹکٹ تھما کر سکھ کا سانس لیا ہوا ہے اور ان کے نزدیک اب مزید وفاقی سطح پر کسی اور اقدام کی ضرورت نہیں رہی۔ وفاقی وزیر علی امین گنڈاپور جن کے پاس جی بی کی وزارت کا قلمدان ہے، وہ صرف ایک مرتبہ جی بی آئے، وہ بھی گذشتہ سال جب وزیراعظم کا دورہ سکردو شیڈول تھا، گنڈہ پور اس کے انتظامات کی نگرانی کیلئے آئے تھے۔ خود وزیراعظم نے صرف جی بی کیلئے کوئی بھی مخصوص دورہ نہیں کیا، تاہم گذشتہ سال یکم نومبر کو یوم آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر گلگت میں ایک تقریب میں شرکت کی، لیکن پارٹی کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے عمران خان نے صوبائی قیادت سے ملاقات تک نہیں کی۔ ان واقعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اگر اس کے باﺅجود بھی تحریک انصاف گلگت بلتستان میں کامیاب ہوتی ہے تو یہ سیاسی معجزہ ہوگا اور اس کا تمام تر کریڈٹ کسی تبدیلی کے نعرے کو نہیں بلکہ امیدواروں کی ذاتی کوششوں کو جائے گا
 پیپلزپارٹی
جی بی الیکشن میں سب سے زیادہ محنت اور دلچسپی اس وقت پیپلزپارٹی کی نظر آرہی ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری 22 روزہ دورے پر گلگت بلتستان میں موجود ہیں اور وہ ہر حلقے میں جلسوں، کارنر میٹنگز اور ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ایک وفاقی پارٹی کے سربراہ کا اتنے لمبے دورانئے کا دورہ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے۔ دو ہزار پندرہ کے انتخابات میں پیپلزپارٹی چوبیس میں سے تیئس حلقوں میں واش ہوگئی تھی، الیکشن میں پی پی کو صرف ایک ہی سیٹ مل سکی۔ تاہم بعد میں نگر میں اسلامی تحریک کے رکن اسمبلی محمد علی شیخ کی اچانک رحلت ہوئی تو اس کے نتیجے میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں پی پی کے امیدوار جاوید حسین کامیاب ہوئے، اس طرح اسمبلی میں پی پی کی سیٹوں کی تعداد دو ہوگئی۔

انتخابات میں بدترین شکست کے بعد پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت نے سابق وزیراعلیٰ سید مہدی شاہ کو پارٹی صدارت سے فارغ کرتے ہوئے امجد حسین ایڈووکیٹ کو قیادت سونپ دی۔ امجد ایڈووکیٹ نے قریب المرگ پارٹی میں نئی جان ڈال دی اور پیپلزپارٹی کو دوبارہ سے منظم کیا۔ گلگت بلتستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا بھی کہنا ہے کہ امجد حسین ایڈووکیٹ نے پیپلزپارٹی کو نئی زندگی دی ہے۔ اب تک کی صورتحال یہ ہے کہ مجموعی رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق پیپلزپارٹی کو انتخابات میں نفسیاتی برتری حاصل ہے۔ پی پی کی ایک اور کامیابی یہ بھی ہے کہ وفاقی حکمران جماعت ہونے اور اس کے نتیجے میں نفسیاتی پریشر ہونے کے باﺅجود تحریک انصاف پی پی کے اہم الیکٹیبلز کو توڑنے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ دوسری طرف نون لیگ کے تقریباً سارے ہی وزراء پی ٹی آئی کو پیارے ہوگئے ہیں۔

نون لیگ
اس وقت جی بی میں سب سے کمزور پوزیشن نون لیگ کی ہے۔ گلگت بلتستان میں وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن کی حکومت ختم ہوتے ہی پارٹی بکھر گئی اور ایک ایک کرکے اہم ترین پارٹی عہدیداروں اور سابق وزیروں نے سیاسی قبلہ تبدیل کرنا شروع کر دیا۔ حفیظ الرحمن نے اس کا ذمہ دار ایجنسیوں کو قرار دیا۔ گذشہ ماہ حفیظ الرحمن کی نواز شریف سے ویڈیو کال کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی، جس میں وہ نواز شریف سے شکوہ کر رہے تھے کہ ایجنسیوں نے ہماری پارٹی کے بیس ارکان اسمبلی کو توڑ کر پی ٹی آئی میں شامل کروا دیا۔ دوسری جانب عام طور پر ایجنسیوں کا تو کسی کو معلوم نہیں، لیکن یہ معلوم ضرور ہے کہ پانچ سالہ دور حکومت میں حفیظ الرحمن نے پارٹی پر توجہ نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حکومت ختم ہونے سے پہلے ہی نون لیگ کا شیرازہ بکھرنا شروع ہوگیا۔

الیکشن کیلئے پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم کے دوران نون لیگ کے کئی سابق ارکان اسمبلی نے درخواستیں ہی نہیں دیں اور بعض نے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑنے کا اعلان کیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق چوبیس میں سے صرف تین حلقوں گلگت حلقہ ایک میں سابق وزیراعلیٰ حفیظ الرحمن جبکہ غذر میں سابق مشیر خوراک غلام محمد جبکہ دیامر کے ایک حلقے میں نون لیگ کی پوزیشن کسی حد تک مستحکم ہے، اس کے علاوہ دیگر تمام حلقوں میں پارٹی کی پوزیشن کمزور دکھائی دیتی ہے۔ کیونکہ اہم عہدیداروں کے چلے جانے سے اکثر حلقوں میں خانہ پری کیلئے ٹکٹ جاری کیے گئے ہیں۔ نون لیگ کیلئے ایک اور مشکل یہ ہے کہ مرکزی قیادت خود اپنا سیاسی کیریر بچانے کیلئے ہاتھ پاﺅں مار رہی ہے، نواز شریف لندن میں ہیں، شہباز جیل میں۔ مریم نواز پی ڈی ایم میں پھنسی ہوئی ہیں۔

اسلامی تحریک
دو ہزار پندرہ کے الیکشن میں اسلامی تحریک نے دوسری پوزیشن حاصل کی تھی، اسمبلی میں ٹیکنوکریٹ ملا کر چار سیٹیں تھیں۔ دو ہزار بیس کے الیکشن میں تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کا معاملہ آخری لمحوں میں گول ہوگیا۔ اتحاد کے کارواں میں آئی ٹی پی کا نام ہونے کے باﺅجود بھی نہ ہوسکا اور یوں صرف پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم کا سیاسی اتحاد ہوا۔ اسلامی تحریک نے جی بی کے گیارہ حلقوں سے امیدوار کھڑے کیے ہیں۔ سابق دور حکومت میں اپوزیشن لیڈر رہنے والے اسلامی تحریک کے رکن اسمبلی محمد شفیع خان چوہدریوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور وہ قاف لیگ کے ٹکٹ پر الیکشن لڑ رہے ہیں۔ گو کہ انتخابی نتائج کا اندازہ لگانا یا پیشگوئی کرنا انتہائی مشکل ہے، لیکن یہ ضرور ہے کہ اس الیکشن میں گلگت بلتستان میں اسلامی تحریک کو مستقبل کے سیاسی کیریئر کی بقاء کا چیلنج درپیش ہے۔

ایم ڈبلیو ایم
 گذشتہ الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین نے دو سیٹیں حاصل کی تھیں۔ دو ہزار بیس کے عام انتخابات میں ایم ڈبلیو ایم چونکہ تحریک انصاف کی اتحادی ہوگئی ہے، جس کے نتیجے میں وحدت کو بہت سارے حلقوں سے دستبردار ہونا پڑا۔ اس وقت تین حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار میدان میں ہیں۔ سکردو حلقہ دو میں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار کاظم میثم، نگر سے حاجی رضوان اور روندو سے ڈاکٹر مشتاق حکیمی ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار ہیں۔

تحریر: لیاقت علی انجم