فوجی بغاوت عالمی منڈی میں ترک معیشت کی تباہی کا سبب بن سکتی ہے
ایران کے اقتصادی تزویراتی مطالعات کےماہر نے کہا ہے کہ اگر ترکی میں بغاوت کی کوشش کے اثرات باقی رہے تو بین الاقوامی مارکیٹ میں ترک معیشت کمزور ہو کربیرونی منڈیوں میں تجارتی صلاحتیں کھودے گا۔
تسنیم نیوز کی رپورٹ کے مطابق، ایرانی ماہر اقتصادیات علی کاشمری جس نے پوترا یونیورسٹی ملیشیاء " Universiti Putra Malaysia "سے اکنامکس میں پی ایچ ڈی کی ہے، اقتصادی علمی انجمن اور جنوب مشرقی ایشیا کی یونیورسٹی کے ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایرانی اقتصاد کے ماہرین کی انجمن کے رکن بھی ہیں۔
موصوف انگلش، مالائی اور عربی زبانوں پر بھی عبور رکھتے ہیں اور معاشی اور بینکاری کی تحقیقات میں سر گرم ہیں۔
تسنیم نیوز ایجنسی کے نمایندے نے اس ماہر اقتصادیات سے ترک بغاوت کے سلسلے میں تفصیلی گفتگو کی ہے جو کہ قارئین کی پیش خدمت ہے۔
انہوں نے اس انٹرویو میں ایران کے لئے ترک بغاوت سے پیدا ہونے والےاقتصادی مواقع کے بارے میں وضاحت کی ہے۔
ترکی پر بغاوت کوشش کے، قلیل المدت، درمیانہ مدت اور طویل المدت اثرات۔
تسنیم: آپ کی رائے میں، ترکی میں بغاوت کی کوشش نےکس حد تک ترک معیشت کو متاثر کیا ہے؟
کاشمری: جب کسی بھی ملک میں سیکیورٹی بحران مختلف شکلوں جیسے بغاوت، دہشت گردی۔۔۔ کی روپ میں پیدا ہوجائے تو بالواسطہ یا بلاواسطہ اخراجات کے ذریعے علاقائی اور عالمی معیشت خود بخود متاثر ہوجاتی ہے۔
ترکی میں فوجی بغاوت سے سب سے پہلے اس ملک میں قلیل المدت انسانی فیزیکی سرمایہ ختم ہوجائے گا اور درمیانہ مدت میں سرمایہ کاروں کا اعتماد کمزور ہوگا جس کی وجہ سے کسی بھی قسم کی سرمایہ کاری سے اجتناب کریں گے اور طویل مدت میں اقتصادی پیداوار میں کمی اور ملکی سیکیورٹی اخراجات اور بیورو کریسی میں اضافہ کی وجہ سے نہایت خراب نتائج نکلیں گے۔
بغاوت اور دہشت گردی اقتصادی صورت حال کی خرابی کے لئے ایک جیسے ہیں۔
تسنیم: اس واقعے کا ملکی مستقبل میں کیا کردار ہوگا؟
کاشمری: میرے خیال میں بغاوت اور دہشت گردی ملکی اقتصادی نقصانات کے لحاظ سے مختلف نہیں بلکہ ایک جیسے ہیں۔
البتہ ان دونوں میں کچھ فرق ضرور ہے۔ مثال کے طور پر بغاوت کے بعد بہت سارے بغاوت کے طرفدار ملکی اقتصاد میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں۔
اسی طرح اگرچہ ترکی میں بغاوت کو شکست ہوئی ہے لیکن مستقبل میں دوسرے مشکلات کا پھوٹ پڑنا خارج از امکان نہیں ہے، یہی بات ملکی اقتصاد کو نقصان پہنچاتی ہے۔
میرے خیال میں اس قسم کی قیاس آرائیاں مستقبل میں ترک اقتصاد اور کرنسی پر بھی اثرانداز ہوں گے۔
فوجی بغاوت بین الاقوامی منڈی میں ترک اقتصاد کو کمزور کرسکتی ہے۔
تسنیم: ترک بغاوت کی عالمی معیشت پر کیا اثرات ہونگے؟
کاشمری: اگر بغاوت کے اثرات باقی رہے تو ترکی بین الاقوامی سطح پر الگ تھلگ ہوکر رہ جائے گا اور عالمی منڈیوں میں اس کی تجارتی صلاحیتیں بھی کمزور ہوسکتی ہیں۔
البتہ ابھی ترکی کے لئے ایک موقع ہے اور وہ یہ ہے کہ یورپی یونین کا بحران اور یورپ میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات ترکی اور یورپ کی منڈیوں کے توازن کو کسی حد تک یکساں برقرار رکھ سکتے ہیں۔
اس بات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ بغاوت کسی ملک کی طاقت پر عدم بھروسے کی عکاسی کرسکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ بغاوت زدہ ممالک پر سرمایہ کار ان ممالک کی نسبت جو دہشت گردی کے لپیٹ میں ہیں، کم اعتماد کرتے ہیں۔
بہت سارے ممالک جو ترکی کو مختلف چیزیں برآمد کررہے تھے اور بین الاقوامی ادارے، خاص طور پر بین الاقوامی مالیاتی ادارے جو ترکی میں مصروف ہیں، ناقابل بھروسہ اور عدم استحکام کے شکار ہوئے ہیں۔
اس قسم کی تمام مشکلات پر قابو پاکراقتصادی فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تسنیم:کیا موجودہ صورتحال ایران اور ترکی کے درمیان تجارتی لین دین متاثر کر سکتی ہے؟ ایرانی تاجروں اور کاروباری رہنماؤں کو آپ کیا مشورہ دیتے ہیں؟
کاشمری: عام طور پرخطے میں ہر قسم کی اقتصادی عدم توازن ملکوں کی تجارتی پالیسیوں کو تبدیل کردیتی ہیں لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس قسم کے مشکلات سے مقابلہ کرکے نہایت کم نقصان اٹھا کے اقتصادی فائدے بھی اٹھائے جاسکتے ہیں۔
ایران اس خطے کی موجودہ صورت حال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر ترکی کو اپنے برآمدات میں اضافہ کرسکتا ہے۔ ترکی میں موجود بین الاقوامی منڈیوں کو اپنی طرف طرف مائل کر سکتا ہے۔ ایران، ترکی کو برآمد کی جانے والی چیزوں کے ناقص نکات کی نشاندہی کرکے برطرف کرسکتا ہے۔