سعودی عرب کا ایران دشمنی اور جنونی حرکتوں پر اصرار کیوں؟
ایک عرب تجزیہ کارنے سعودی عرب کی خطے میں مہنگی اور بچہ گانہ پالیسیوں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ معاندانہ رویے کے بارے میں وضاحت دی ہے۔
تسنیم نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق؛ سعودی عرب کی اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ دشمنی کی تاریخ اگرچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے زمانے سے وابستہ ہے کیوںکہ جیسے ہی ایران میں اسلامی انقلاب آیا تب سے آل سعود نے ایران کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے لیکن حالیہ پانچ برسوں کے دوران بالخصوص ''عبد اللہ بن عبد العزیز'' کی وفات کے بعد سعودی حکمرانوں نے ایران کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی پیدا کرتے ہوئے ایران دشمن پالیسیوں میں اضافہ کردیا ہے۔
خطے اور اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف سعودی حکومت کی بچہ گانہ پالیسیوں پر اصرار کے بارے میں اردن کے تجزیہ کار '' ہشام الہیبشان'' نے تسنیم نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کچھ یوں کہا ہے:
وہ لوگ جو سعودی عرب کی خطے میں مایوسی اور انتشار پھیلانے کے علاوہ حزب اللہ اور اسلامی جمہوری ایران کے ساتھ معاندانہ رویوں کی جانچ پڑتال کرتے ہیں وہ اس بات سے انکار ہی نہیں کرسکتے کہ حزب اللہ نے اسلامی جمہوریہ ایران کی طرح خطے میں اور بالخصوص شام میں حکومت مخالف گروہوں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اور چونکہ سعودی عرب کا شمار ان تمام دہشت گرد گروہوں کے حامیوں میں ہوتا ہے، اس حالت میں حزب اللہ اور اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے شامی فوج کی پے در پے کامیابیاں اور حلب شہر کے نواحی علاقوں سے لیکر ترک شام سرحدوں پر کنٹرول، سعودی حکمرانوں کا جنون اور ایران کے خلاف دشمنی میں اضافے کا سبب بننا فطری بات ہے۔
باغیوں کو شام کے حلب شہر میں ناکامی کے بعد سعودیوں نے ٹھان لیا ہے کہ کسی بھی طریقے سے اس ناکامی کا بدلہ ایران سے لیا جائے یہی وجہ ہے کہ ریاض حکومت نے ایران کے ساتھ سخت اور غیر منطقی رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔
سعودی عرب کی صیہونی حکومت کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی تیز رفتار تحریک کے بارے میں اردنی تجزیہ کار کا کہنا ہے کہ میرے خیال میں سعودی عرب کا اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی کوشش سے فلسطین اور مزاحمتی تحریک پر گہرے اثرات مرتب ہونگے۔
ریاض کا اسرائیل کے خلاف بر سر پیکار فلسطینی اور لبنانی مزاحمت کاروں پر دہشت گردی کا الزام لگانا، سعودی اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کی کوششوں کی ایک کڑی ہے۔
یہ ایسے حالات میں ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات سےخود سعودی عرب کے لئے بھی منفی نتایج برآمد ہونگے۔