ایرانی واجب الاداء رقم کا جوہری معاہدے کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں/ ''تاو'' میزائل کے بارے میں امریکی بیانات بدنیتی پر مبنی ہیں
ایران کے اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نے کہا ہے کہ ایران نے اسلامی انقلاب سے پہلے امریکہ کو اسلحے کی خریداری کے لئے 400 میلین ڈالر دئے تھے جو واجب الادا رقم تھی اور اس کا جوہری معاہدے کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں ہے۔
تسنیم خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سپریم لیڈر "حضرت آیت اللہ خامنہ ای کے نمائندے اوراعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری "علی شمخانی" نے کہا: ایران نے جو400 میلین ڈالر امریکہ سے واپس لئے ہیں وہ اسلامی انقلاب سے پہلے فوجی سازوسامان کی خریداری کے لئے امریکہ کو دئے گئے تھے جس کا جوہری معاہدے کے ساتھ کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں ہے۔
انہوں نے ایرانی رقم کی واپسی اور ایٹمی معاہدے کو ایک اتفاق قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایران نے اسلامی انقلاب کے آنے کے بعد ملک سے باہر ہر قسم کی ایرانی اموال اور قومی اثاثوں کی ملک واپسی کے لئے کام شروع کیا ہوا ہے اور حالیہ 400 میلین ڈالر کی ملک واپسی انہی کوششوں میں سے ایک ہے۔
اعلیٰ قومی سلامتی کونسل کے سیکرٹری نے مزید کہا کہ یہ رقم گزشتہ شہنشاہی حکومت اور امریکہ کے درمیان اسلحے کی خریداری کےلئے ہونے والے معاہدے کی ہے۔ ایران نے اسلامی انقلاب کے بعد بین الاقوامی عدالتوں سے رجوع کیا ہے اور اس بارے میں کیس اب بھی چل رہا ہے۔
شمخانی نے ایران کی طرف سے 1985ء میں امریکہ کو دئیے گئے 400 میلین ڈالر کے بارے میں ''میک فارلین'' کے سفر کے دوران ایران کی طرف سے واپسی کی درخواست اور امریکی مخالفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: 1985ء میں 400 میلین ڈالر ایران کو واپس نہ کرنے کی وجہ سے امریکہ پر ایران کے تقریبا ایک ارب سات سو دس ملین ڈالر واجب الاداء ہوگئے تھے۔
ایرانی قومی سلامتی کونسل کے مشیر کا کہنا تھا کہ امریکی حکام حالیہ بیانات انتخابات کی وجہ سے دے رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ اس معاملے کے بارے میں تفصیلات نہ بتائیں تاکہ امریکی ہنگامہ خیز صدارتی انتخابات میں ساری تفصیلات خود برملا کریں۔
علی شمخانی نے امریکی حکام کی طرف سے ایران کو ناقص ''تاو'' میزائل کی فراہمی پر میک فارلین کی دھوکہ دہی اور جھوٹ کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اس قسم کی صداقت سے عاری بیانات نے امریکہ کو ہماری قوم اور عالمی رائےعامہ کے نزدیک پہلے سے زیادہ نا قابل بھروسہ بنا دیا ہے اور یہ امریکیوں کے ناقابل اعتماد ہونے کی ایک مضبوط دلیل ہے۔