لبنان میں فلسطینی کیمپوں پر کیا بیت رہی ہے؟
شام بحران کا لبنان میں موجود فلسطینی کیمپوں تک پھیل جانا اور زیادہ تر لوگوں کا ان کیمپوں کی طرف رخ کرنے کی وجہ سے یہ کیمپ بھی مسلسل عدم تحفظ اور بدامنی کا شکار رہے ہیں۔
تسنیم خبررساں ادارے کے مطابق، شام کے بحران کے آغاز کے ساتھ ساتھ لبنان میں فلسطینی کیمپ بھی عدم تحفظ کا شکار رہے ہیں جن میں بدامنی اکثر قتل، دھماکوں اور اکا دکا فائرنگ کی صورت میں سامنے آتی رہی ہے۔
ان دنوں وہاں سے موصول ہونے والی خبروں سے پتہ چلتا ہے کہ سلفی اور تکفیری گروہ لبنان میں فلسطینی کیمپوں میں دراندازی کر رہے ہیں اور اثر و رسوخ بڑھانے کے درپے ہیں یہاں تک کہ جیش الاسلام اور انصار الاسلام کے ناموں سے بعض گروہوں نے وہاں اپنے وجود کا اعلان بھی کیا ہے۔
لبنان کے کیمپوں کا عدم تحفظ
شام میں دہشت گردوں کے طاقتور ہونے کے بعد، لبنان میں فلسطینی کیمپ مزید عدم تحفظ کا شکار ہوئے۔ یہ کیمپ شام میں دہشت گردی کرنے والے گروہوں کیآمد و رفت کے مرکز بن گئے تھے۔
دہشت گردوں کی فلسطینی کیمپوں میں موجودگی کا سب سے بڑا ہدف فلسطینیوں میں سے افراد بھرتی کرنا تھا۔
فلسطینی دو اعتبار سے ان کے لئے اہمیت کے حامل تھے پہلے یہ کہ کیمپوں میں نقل مکانی اور پر مشقت زندگی کی وجہ سے ذاتی طور پر عسکریت پسند جنگجو تھے۔ دوسری یہ کہ فلسطین اور اپنےآبائی وطن سے دور رہنے کی بنا پر لڑنے کے لئے انتہائی حوصلہ ان میں موجود تھا.
تیسرا فائدہ کیمپ کی وجہ سے تھا۔ کیمپوں میں مستقل سیکیورٹی کی کمی اور ایک طاقتور سیکورٹی کی عدم موجودگی کے سبب صیہونیوں کی آمد و رفت کے لئےسب سے زیادہ محفوظ جگہ شمار ہوتے تھے. اس کے بعد فلسطینی دھڑوں میں سے ہر ایک نے کیمپوں میں جگہ بنانے کی کوشش کی. سب سے زیادہ سرگرمیاں الفتح اور فلسطینی اتھارٹی کی سیکیورٹی کی تھیں۔ فلسطینیاتھارٹی کی کوشش تھی کہ اپنے تابع کسی گروہ کو وہاں مقرر کرے۔ چند گروہوں نے لبنان کے کیمپوں میں فعالیت کرنا شروع کیا لیکن فنڈز کی کمی اور ان گروہوں کے لئے لوگوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے ان گروہوں کوکچھ خاص کامیابی نہی ملی۔
فلسطینیاتھارٹی کی کمزوری اور گروہوں کا مقابلہ
لبنانی سیکیورٹی نےفلسطینیوں کے تعاون سے کیمپوں کی سیکورٹی کو برقرار رکھنے کی کوشش کی
لبنانی سیکورٹی اداروں کی فلسطینی اتھارٹی کی سیکورٹی کے ساتھ باقاعدگی سے اجلاس اور ملاقاتیں بھی ناکافی ثابت ہوئیں۔ لبنانی سیکورٹی اداروں نے حزب اللہ کی مدد سے کیمپوں سے سلفیوں اور تکفیریوں کے ہاتھوں کو کاٹ دیا تاہم یہ کیمپ فلسطینی دھڑوں کے درمیان میدان جنگ میں تبدیل ہوگئے۔ یہ لڑائیاں اس وجہ سے ان کیمپوں میں پھوٹ پڑیں کہ ہرکوئی کیمپ کو اپنے کنٹرول میں لینے کی کوشش کرتا رہا۔
سماجی سرگرمیاں، سنہری حکمت عملی
اس دوران ایک گروہ جوسلفی نظریات رکھتا تھا، کو کچھ کیمپوں میں تقویت ملی اس گروہ کا نام انصاراللہ تھا اور سلفی نظریات کے ذریعے سے مسلح سرگرمیوں کو فروغ دینے کی کوشش میں تھا لیکن اس گروہ نے اچانک اپنے پلیٹ فارم اور عقیدے کو تبدیل کیا اور مسلح سرگرمیوں سے جدا ہوکرسماجی سرگرمیوں کی طرف چلا۔ پالیسی کے تبدیل کرنے کے تقریبا چار سال بعد یہ گروہ کیمپوں میں موجود سب سے زیادہ معتبر اور مشہور گروہوں میں سے ایک بن گیا ہے اوراس کی تمام سرگرمیوں کی توجہ لبنان کے فلسطینی کیمپوں میں فلسطینیوں کے مسائل حل کرنے پر مرکوز ہے۔ کیمپوں کے باسی اس گروہ کے انتہائی حامی ہیں۔
اس گروہ کی درست حکمت عملی بتاتی ہے کہ سماجی مسائل کے حل کی طرف توجہ کی حکمت عملی ایسی حکمت عملی ہے کہ اسے سیاسی سرگرمیوں کی جگہ لیناچاہئے۔
آج فلسطینی دھڑے سیاسی سرگرمیوں میں غرق ہیں اور ان سرگرمیوں میں ڈوبنے کی وجہ سے فلسطینی عوام سے بے خبر ہیں۔ مغربی ممالک کےکچھ گروہ کوشش کررہے ہیں کہ فلسطینیوں کو اپنے ملکوں کی جانب ہجرت کرنے کے لئے جذب کرکے شہریت دے اور وقت کے ساتھ ساتھ کیمپوں کی آبادی کوخالی کردیں اور وہ دن آئے کہ وہاں کیمپوں میں کوئی فلسطینی پناہ گزین باقی نہ رہے۔ آج کچھ کیمپوں کو اس مسئلے کا سامنا ہے اور ان کیمپوں کی آبادی کا ایک حصہ مقامی لوگ ہیں جو غربت اور معاشی مسائل کے باعث یہاں رہتے ہیں۔
کیمپوں کی جانب درست نگاہ اور ان کی طرف توجہ فلسطین اور فلسطینیوں کو زندہ برقرار رکھ سکتی ہے جبکہ بصورت دیگر، اگلے 20 سالوں میں فلسطینیوں اور فلسطین کا کوئی اثرباقی نہی رہے گا۔