شریف برادران کی ہٹ دھرمی اور ہر چیز کو خریدنے کا فن انصاف کی راہ میں اصل رکاوٹ
منہاج القرآن ٹیکسلا واہ کے صدر نے کہا ہے کہ شریف برادران چھوٹے سے چھوٹے ادارے سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک کو خریدنے کے ماہر ہیں جبکہ پاکستان میں انصاف کی راہ میں یہی چیز سب سے بڑی مانع ہے۔
منہاج القرآن ٹیکسلا واہ کے صدر پروفیسر عبدالرحیم، کمپیوٹر سائنسز میں پی ایچ ڈی ہیں۔ علاوہ ازیں درس نظامی اور دیگر مذہبی تعلیمات بھی رکھتے ہیں، حسن ابدال میں خطابت، سکولنگ سسٹم اور لیکچر دینا ان کے دیگر مشاغل ہیں۔ وہ ماضی میں بھی منہاج القرآن تحصیل ٹیکسلا کے صدر رہے، نظامت تربیت اور نظامت دعوت کی ذمہ داریاں بھی ادا کیں ہیں۔ گذشتہ دو سال سے ایک دفعہ پھر صدارت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ تسنیم نیوز ایجنسی نے پاکستان عوامی تحریک کے حالیہ دھرنے کی کال پر پروفیسر عبدالرحیم کا مؤقف لیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔
تسنیم:پاکستان عوامی تحریک نے ایک مرتبہ پھر حکومت کیخلاف اسلام آباد میں دھرنا دینے کا فیصلہ کیا ہے، لائحہ عمل کیا ہے؟
پروفیسر عبدالرحیم: پہلے تو میں تسنیم نیوز ایجنسی کا مشکور ہوں کہ جنہوں نے مجھے بولنے کا موقع دیا، دوسرا تحریک میں ایک خاصہ یہ ہوتا ہے کہ اس میں ایک لیڈر شپ کے پیچھے چلا جاتا ہے، ڈاکٹر طاہر القادری ہمارے لیڈر ہیں، وہ اگر ہمیں کہیں کہ صبح ہے تو ہم کہیں گے صبح ہے، وہ اگر کہیں گے شام ہے تو شام ہے۔ اس کے پس منظر کے اندر کیا چیزیں ہیں، ہم اس میں جانا نہیں چاہتے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ ان کا جو حکم ہے ہم اسے من و عن تسلیم کریں گے۔ دوسری بات، جب بھی احتجاج ہو رہے ہوتے ہیں، وہ حکومت کو متنبہ کرنے کے لئے ہوتے ہیں، حکومت کو پیغام پہنچانے کے لئے، اب یہ پیغام پہنچانے کے مختلف طریقے اور ذرائع ہیں، ڈاکٹر صاحب نے گلی گلی، شہر شہر اور قریہ قریہ احتجاج کا جال بچھا دیا ہے، مرکزی احتجاج کے حوالہ سے حکمت عملی تبدیل ہوئی اور بیس تاریخ کے احتجاج کو اٹھائیس پے لے جایا گیا۔
تسنیم:سانحہ ماڈل ٹاون رونما ہوا، تحریک میں جوش پیدا ہوا، دھرنا دیا گیا، دھرنا کے خاتمہ سے کارکن میں مایوسی پیدا ہوئی، کیا اس بار بھی کارکن اسی جذبے سے دھرنے میں آئیں گے؟
پروفیسر عبدالرحیم: میں فیلڈ میں ہوں، میرے پاس ٹیکسلا واہ میں صدارت کی ذمہ داری ہے، شاید ہی کوئی سٹریٹ ورکر (ہم اسے اسٹریٹ ورکر نہیں کہتے) ہم کارکن کہتے ہیں، البتہ میں ایک ایک کارکن کے حوصلے سے باخبر ہوں، یہاں آج بھی جذبے اسی طرح جوان ہیں جس طرح 23 دسمبر کو قائد محترم کی لاہور آمد کے موقع پر تھے۔
تسنیم:ہم دیکھتے ہیں کہ جب کبھی پی ٹی آئی، ایم ڈبلیو ایم، پاکستان عوامی تحریک یا دیگر کوئی جماعت اپنے حقوق کی بات کرتی ہے، میدان میں اترتی ہے تو ایک پنہاں ہاتھ کیجانب اشارہ کیا جاتا ہے، اس تاثر کو زائل کرنے کیلئے آپکے پاس کیا دلیل ہے؟
پروفیسر عبدالرحیم: ہمارے اوپر الزام لگانے والے دیکھ چکے ہیں کہ ہمارے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ڈاکٹر صاحب نے ایک مرتبہ نہیں بلکہ ہزار بار کہا ہے کہ ہمارے پیچھے ایک ہاتھ ہے اور وہ گنبد خضریٰ کا ہے۔ جتنی تاویلیں کی گئیں، جتنے اشارات کئے گئے، وہ سارے کے سارے بلآخر ریت کی دیوار ثابت ہوئے اور بہہ گئے اور آج الحمد للہ طمطراق کے ساتھ میدان عمل میں موجود ہیں، ہاں جنہوں نے انگلی کے اشاروں کی بات کی تھی، اب اس کا جواب وہی دے سکتے ہیں کہ ایمپائر سے ان کی مراد کیا تھی اور فیصلہ کن مرحلے کے اعلان کرنے والا کون تھا، ہماری قیادت اور ہمارے کارکنان کی طرف سے کبھی کسی ایسی چیز کا اظہار کیا گیا اور نہ کسی کی طرف اشارہ کیا گیا لیکن اس تحریک قصاص میں ہم برملا جنرل راحیل شریف کو کال کر رہے ہیں اور کال کرکے یہ کہہ رہے ہیں کہ آپ نے ابتدا میں ہمارا ساتھ دیا تھا، اس تحریک کو منطقی انجام تک پہنچانا بھی آپ کی ذمہ داری ہے۔
تسنیم: سانحہ ماڈل ٹاون پر جسٹس باقر نجفی کی رپورٹ موجود ہے، انصاف کیوں نہیں دیا جا رہا، کن عناصر کو مانع سمجھتے ہیں؟
پروفیسر عبدالرحیم: صرف شریف برادران کی ہٹ دھرمی اور ہر چیز کو خریدنے کا فن انصاف کی راہ میں رکاوٹ بنا ہوا ہے چاہے وہ عدلیہ ہو یا پولیس یا سپریم کورٹ ہو، ہم نے ایسے بھی جج صاحبان دیکھے ہیں جو اصل چیز پر بحث کئے بغیر ہزارہا حیل و حجت میں پڑے اور اس تحریک کی کاز کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی تاہم ہم برملا کہتے ہیں کہ ایک چھوٹے سے چھوٹے ادارے سے لیکر اعلیٰ عدلیہ تک کو خریدنے کے یہ ماہر ہیں اور انصاف کی راہ میں یہی چیز سب سے بڑی مانع ہے۔
تسنیم: گذشتہ دھرنے میں موسم کی سختیوں کے باوجود کارکنان جن میں خواتین بھی شامل تھیں، کئی روز تک اسلام آباد میں بیٹھے رہے، حالیہ دھرنے میں کیا حکمت عملی ہوگی؟
پروفیسر عبدالرحیم: اعلان کے مطابق حالیہ دھرنا صرف ایک دن کا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے حالیہ بریفنگ اور پریس کانفرنس میں اس بات کا اظہار بھی کیا ہے کہ دھرنے کو جاری رکھنے یا نہ رکھنے کا اعلان بعد میں کیا جائے گا۔ 28 تاریخ کی رات کو یہ اعلان کیا جائے گا۔ ابھی تک پروگرام یہ ہے کہ ہم نے تین چار گھنٹے کا علامتی دھرنا دینا ہے، شام تین سے چھ بجے تک یہ علامتی دھرنا جاری رہے گا۔
تسنیم: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ اس علامتی دھرنے سے آپ اپنا مقصد حاصل کر پائیں گے، سانحہ ماڈل ٹاون کے شہداء کا قصاص دے دیا جائے گا؟
پروفیسر عبدالرحیم: حقیقی جمہوری معاشروں میں دو افراد کا سڑک پر آجانا بھی کافی ہوتا ہے لیکن ہمارا معاشرہ جسے ہم جمہوری معاشرہ کہتے ہیں درحقیقت اس میں جمہوریت کی بیخ کنی کر دی گئی ہے، اس کی طنابیں تک اکھاڑ دی گئی ہیں لیکن پھر بھی ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے احتجاج انتہائی مؤثر ہوتے ہیں، یہاں کی حکومت اور میڈیا اس کا نوٹس لے یا نہ لے، عالمی ادارے پل پل کی خبر رکھے ہوئے ہیں، عالمی اداروں میں رپورٹس جا رہی ہیں۔ ہر ایک کے قونصل خانے یہاں موجود ہیں اور وہ دن دور نہیں جب عالمی ادارے اپنا رول پلے کرکے ہمیں یہاں انصاف دلائیں گے۔
تسنیم:گذشتہ دھرنے میں چند دیگر پارٹیاں بھی آپکا ساتھ دے رہیں تھیں، اس دفعہ کون کون سی پارٹیاں آپکا ساتھ دیں گی؟
پروفیسر عبدالرحیم: پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کا گول ایک ہی ہے، راستے بیشک جدا ہیں گول ایک ہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ راستے جدا جدا ہیں لیکن دونوں جماعتوں کی جدوجہد ایک ہی مقصد کے لئے ہے۔
تسنیم: صوبائی اسمبلی کی نشست پی پی-7 ٹیکسلا پر ضمنی انتخابات ہونے جا رہے ہیں، کیا آپ ووٹ کاسٹ کریں گے؟
پروفیسر عبدالرحیم: ہم قبلہ قائد محترم کے حکم کے مطابق اس کو موقوف رکھیں گے۔ 2 ستمبر کو مجلس شوریٰ کا اجلاس ہے ہم پی پی-7 کا یہ معاملہ ان کے سامنے رکھیں گے اگر مجلس شوریٰ نے فیصلہ دیا کہ کارکنان اس حلقہ میں ووٹ دیں تو تب ہم دیں گے۔