تھائی شیعہ راہنما: امام خامنہ ای کا پیغام حج مسلمانوں کے دل کی بات ہے
تھائی شیعہ راہنما ڈاکٹر الشریف نے کہا ہے کہ آل سعود کے نام امام خامنہ ای کا پیغام مسلمانوں کے دل کی بات ہے جس کو بیان کرنے کی جرأت کسی اور میں نہ تھی۔
خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، تھائی شیعہ راہنما ڈاکٹر الشریف کہتے ہیں: جب امام خامنہ ای نے یہ پیغام دیا اور فرمایا کہ "میرے مسلم بہنو اور بھائیوں" تو ان کا خطاب صرف اہل تشیع سے نہیں تھا بلکہ تمام مسلمانوں سے تھا اور آپ نے تمام مسلمانوں کو دعوت دی کہ بیدار اور ہوشیار ہوجائیں اور جان لیں کہ آل سعود شجرہ ملعونہ ہے؛ رہبر مخاطِب ہوئے ہیں اور آل سعود اور اس کے مغربی حلیف مسلمانوں کے رد عمل سے خوفزدہ ہیں۔
انجمن رہیافتگان کی رپورٹ کے مطابق، ایسے حال میں کہ آل سعود المیۂ منیٰ پر معذرت کرنے کے بجائے اور ہزاروں حجاج کی شہادت سے کنی کترانے کی پالیسی اختیار کی ہے، امسال بھی سعودی حکومت الزام قبول کئے بغیر گستاخی کی حدود سے گذرکر مدعی بنی ہوئی ہے اور گذشتہ سال پانچ سو کے قریب ایرانی اور دوسرے ممالک کے ہزاروں حجاج کے قتل عام پر ملتِ ایران سے دلجوئی کے بجائے انہیں سرکاری طور پر حج بجا لانے سے باز رکھا۔
اس اثناء میں تمام مسلمانوں کے نام رہبر معظم امام خامنہ ای کے پیغام حج، ایک عظیم واقعہ تھا جس کی پوری دنیا میں عکاسی ہوئی اور پوری دنیا سے اس کا رد عمل سامنے آیا۔ چنانچہ 598 ڈاٹ آئی آر نے عالم اسلام کے ایک مشہور مفکر اور تھائی شیعہ راہنما ڈاکٹر الشریف سے ایک مکالمہ ترتیب دیا؛ جو قارئین و صارفین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے:
سوال: آپ تھائی لینڈ کے شیعیان اہل بیت(ع) کے ایک راہنما کی حیثیت سے مسلمانان عالم کے نام امام خامنہ ای کے پیغام کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے اور اس کی کس طرح وضاحت کریں گے؟
جواب: ایک بروقت، موقع کے عین مطابق تھا۔ انھوں نے ہر مذہب اور ہر جغرافیائی محل وقوع میں رہنے والے مسلمانوں سے خطاب کیا ہے اور ہم رہبر معظم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ یہ پیغام شیعوں پر تو کیا، اہل سنت پر بھی اثرانداز ہوا کیونکہ وہ قبل ازیں سعودی حکومت کو عالم اسلام کی امّ القریٰ، راہنما اور مرکز اسلام سمجھتے تھے لیکن جب انھوں نے یہ پیغام دیا اور فرمایا کہ "اے میرے مسلمان بہنو اور بھائیو!" تو ان کا خطاب اہل تشیّع سے نہیں بلکہ عام مسلمانوں سے تھا کہ بیدار اور ہوشیار ہوجاؤ اور جان لو کہ آل سعود کی حکومت شجرۂ ملعونہ ہے۔
یہ بہت بھاری اور بامعنی جملہ ہے اور سعودی حکومت مزید اسلام کا مرکز اور اسلام کا مبدء نہیں ہے؛ ایسا جملہ جو قبل ازاں کوئی بھی کہنے کی جرئت نہیں رکھتا تھا، جب انھوں نے فرمایا کہ آل سعود کی حکومت بے دین ہے یعنی یہ کہ یہ حکومت کسی بھی دین اور مذہب پر عقیدہ نہیں رکھتی، حتی کہ یہ کافر سے بدتر ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کافر کسی چیزی کی پرستش کرے لیکن بےدین وہ ہے جو کسی بھی چیز کو قبول نہیں رکھتا۔ یہ الفاظ قابل غور و تامل ہیں۔
سوال: کیا مشرقی ایشیا اور تھائی لینڈ سمیت مسلم اقلیتی ممالک میں بھی یہ پیغام مؤثر تھا؟
جواب: جی ہاں! کیونکہ تھائی لینڈ میں مسلمانوں کو بہت زیادہ اذیت و آزار کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور تمام مسلمانوں کے نام رہبر مسلمین کا پیغام ان کے حوصلوں کی بلندی کا باعث ہوئی؛ اور پھر ایک تھائی مسلمان بھی گذشتہ سال کے المیۂ منیٰ میں مارا گیا۔ سعودی حکمرانوں نے تاوان دینے کا دعوی کیا لیکن نہ صرف تاوان کی ادائیگی سے دریغ کیا بلکہ اس مسئلے کی طرف توجہ ہی نہیں دے رہے ہیں، گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں ہے۔ رہبر مسلمین کا پیغام تھائی مسلمانوں کی خوشی اور حوصلہ افزائی کا سبب ہوا۔
سوال: آپ کے خیال میں مسلمانوں کے نام رہبر انقلاب اسلامی کا پیغام پوری دنیا والوں اور بطور خاص مسلمانوں تک پہنچانے کے لئے کیا کرنا چاہئے؟
جواب: میرے خیال میں انجمنِ ایڈوارڈو آنیلی کو جامعۃ المصطفی کے ساتھ ملاقات اور تبادلہ خیال کرنا چاہئے کیونکہ جامعۃ المصطفی میں دنیا کے 110 ممالک کے طلبہ علم حاصل کررہے ہیں۔ حج کے ان ہی ایام میں دنیا بھر کے طلبہ اور علماء کو امام خامنہ ای کا پیغام اپنی اپنی زبانوں میں ترجمہ کرنا چاہئے اور ویب سائٹوں، ویب لاگوں اور فیس بک وغیرہ پر شائع کرنا چاہئے۔ اس پر کچھ زیادہ اخراجات صرف نہیں ہوتا اور بہت زیادہ وقت بھی نہیں لیتا؛ بلکہ یہ ایک ذمہ داری اور ایک اسلامی فریضہ ہے کہ رہبر معظم کے پیغام کو پوردی دنیا کے انسانوں اور بالخصوص مسلمانوں تک پہنچایا جائے تا کہ پوری دنیا والے شجرہ آل سعود ـ اور بقول رہبر معظم "شجرہ ملعونہ ـ کے منحوس چہرے کو پہچان لیں۔
سوال: کیا آپ نے خود اس سلسلے میں کوئی اقدام کیا ہے؟
جواب: جی ہاں! میں نے اسی شب فوری طور پر امام خامنہ کے پیغام کا تھائی زبان میں ترجمہ کیا اور فیس بک میں شائع کیا؛ خدا کا شکر کہ اس کا وسیع سطح پر خیر مقدم ہوا ہے اور ان ہی چند دنوں میں بہت سے لوگوں نے اس کو پسند کیا اور اس پر اپنی آراء لکھ کر اس کی تائید کرلی۔
سوال: تھائی لینڈ میں ایک شیعہ راہنما کی حیثیت سے، آپ کے خیال میں امام خامنہ ای کے پیغام کا اہم ترین نکتہ کیا ہے؟
جواب: یہی کہ ہمیں اپنے دشمن کو پہچان لینا چاہئے، جو لوگ خادم الحرمین الشریفین کہلواتے ہیں، جان بوجھ کر حرمین میں بہت زیادہ انسانوں کے قتل کے مرتکب ہوئے۔ رہبر معظم نے فرمایا: اے مسلمانوں بھائیو اور بہنو بیدار ہوجاؤ، اور یہ کہ حج کے انتظام میں تمام مسلمانوں کو کردار ادا کرنا چاہئے اور نہ کہ سعودی حکمران، جو اس انتظام کے اہل ہی نہیں ہیں۔ یہ بہت اچھی اور اہم بات تھی۔ ہم نے دو تین سال قبل کہا تھا لیکن آج رہبر معظم نے زیادہ قوت اور اقتدار کے ساتھ فرمایا اور ان کی بات کچھ اور تھی جس کو بہر صورت سامنے آنا چاہئے تھا۔ حج کے انتظام اور حرمین کے مقدرات میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی رائے کو فیصلہ کن ہونا چاہئے، سب کی مداخلت ضروری ہے اور سب کو کردار ادا کرنا چاہئے۔ نہ یہ کہ سعودی حکمران تمام مسلمانوں کی طرف سے خودسرانہ فیصلے کرے جبکہ کی کارکردگی کا پس منظر دیکھ کر بآسانی کہا جاسکتا ہے کہ وہ اس امر عظیم کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ میرے لئے یہ ساری باتیں بہت اہم اور دلچسپ تھیں اور انھوں نے ہمارے دل کی بات کہی ہے۔
سوال: اس سال ایرانی حجاج حج بیت اللہ کے لئے نہیں گئے، آپ اس بارے میں کیا کہنا چاہیں گے؟
جواب: میرے خیال میں ایرانیوں نے اچھا کیا کہ نہیں گئے؛ حالانکہ ایرانی حجاج، حجاج بیت اللہ کا ایک بڑا حصہ تشکیل دیتے ہیں، جبکہ سعودی ہمیشہ سے انہیں کافر سمجھتے ہیں، لیکن یہ کیسی بات ہے کہ کافر حج بیت اللہ اور دینی اور اسلامی مراسمات اور اعمال و مناسک پر عقیدہ و یقین رکھتے ہیں اور ان مناسک و اعمال میں شرکت کرتے ہیں۔ اس سال قطعی طور پر مسلمانوں کے لئے سوال ہوگا کہ ایرانی کیوں نہیں آئے؟ یہ سوال اور تجسس آل سعود کی رسوائی میں مؤثر کردار ادا کرے گا۔
سوال: آپ کے خیال میں، کیا سعودی حکمران ڈالروں اور ذرائع ابلاغ کی مدد سے منیٰ کے حقائق کو منحرف کرسکیں گے؟
جواب: نہیں، کیونکہ سعودی حکمران برسوں سے پیسہ خرچ کررہے ہیں، حتی انھوں نے اقوام متحدہ کو بھی خرید لیا ہے تا کہ وہ انہیں انسانی حقوق کو پامال کرنے والوں کی فہرست سے خارج کر دے، لیکن ہمیشہ کے لئے تمام انسانوں کو دھوکے میں نہیں رکھا جاسکتا، اور وہ بھی ایسی حقیقت سے جس میں ایک دینی عمل کے دوران ہزاراوں انسانوں کا قتل عام ہوا ہو، جس کو ڈالر خرچ کرنے اور ذرائع ابلاغ سے فائدہ اٹھا کر توڑ مروڑ کر پیش نہیں کیا جاسکتا۔
سوال: کیا ممکن ہے کہ اس سال بھی پچھلے سال کا المیہ دہرایا جائے؟
جواب: سعودی مزید جرئت نہیں کرسکتے، اور پھر امام خامنہ ای کے پیغام کے بعد مسئلہ ان کے لئے مزید حساس ہوچکا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ جس قدر بھی سستی اور بےرخی برتیں، پھر بھی وہ اس بات سے خائف ہیں کہ گذشتہ سال والا واقعہ دہرایا جائے۔ کیونکہ اس صورت میں اپنی جڑوں پر خود کلہاڑا ماریں گے اور سب کے لئے ثابت ہوگا کہ یہ لوگ خدمت حرمین شریفین کی اہلیت نہیں رکھتے؛ بےشک مغربی ذرائع ابلاغ نے بھی امام خامنہ ای کے پیغام کو کوریج دی ہے اورانہیں پیشکش ہے کہ کہیں سعودی حکمرانوں کی قوت میں کوئی کمی نہ آئے۔
سوال: کیا آپ مغربی ذرائع ابلاغ میں امام خامنہ ای کے پیغام کی عکاسی سے باخبر ہیں؟
جواب: بلاواسطہ طور پر تو میرا کوئی رابطہ نہیں ہے لیکن تجربے کی بنا پر بخوبی جانتا ہوں کہ انہیں خاموش اور بےخبر نہیں ہونا چاہئے۔ انہیں معلوم ہے کہ رہبر انقلاب اسلامی ہوشیار اور بیدار ہیں اور وہ تمام مسلمانوں سے مخاطب ہوئے ہیں اور وہ مسلمانوں کے رد عمل سے خوفزدہ ہیں، بہرحال آج کے زمانے میں ذرائع ابلاغ خبروں کی فوری نشر و اشاعت کا اہتمام کرتے ہیں۔
سوال: اگر سعودی حکمران کسی بھی وجہ سے واقع ہونے والا حادثات اور واقعات کو منحرف کرنا چاہیں، اور اس فیصلے میں کامیابی ہوجائیں تو اس کے نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
جواب: میرے خیال میں ان کے لئے کوئی آبرو نہیں رہے گی اور بےشک اس کے اثرات اچھے نہیں ہونگے، میرے خیال میں اتنے عظیم واقعات کی تحریف کی کوشش ایک حماقت ہوگی اور یہ ممکن نہیں ہے کہ ان واقعات میں پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے تحریف کی کوشش، ممکن نہیں ہے۔
سوال: ان واقعات کے پیش نظر، تھائی لینڈ میں وہابیوں اور سلفیوں کی پوزیشن پر کیا اثرات مرتب ہونگے؟
جواب: تقریبا 20 سال قبل، جب وہابی اسلام کا لبادہ اوڑھ کر تھائی لینڈ میں داخل ہوئے، اور لوگوں کو وہابیت اختیار کرنے کے لئے بے تحاشا دولت لٹائی، لیکن وہ جس قدر آگے بڑھتے رہے لوگ بھی رفتہ رفتہ اس حقیقت کا ادراک کرچکے کہ ان کا کلام بھی اور عمل بھی، اسلام سے متصادم ہے۔ اہل سنت بھی ان سے الگ ہوچکے ہیں اور وہابیوں سے دو ٹوک الفاظ میں کہہ چکے ہیں کہ "تم نہ تو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کی سنت و سیرت کے پیروکار ہو اور نہ ہی قرآن کے تابع، بلکہ تمہارا نظریہ اور تمہارا عقیدہ اسلام سے جدا ہے، تم مسلمان نہیں ہو"۔ یہ بحیثیت شیعہ میری بات نہیں ہے بلکہ یہ تھائی لینڈ کے سنی علماء کا کلام ہے کہ "سلفی اپنی رائے پر عمل کرتے ہیں نہ کہ اسلام پر"۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے پاس پیسہ اور سرمایہ بہت ہے لیکن چونکہ ان کا حامی سعودی عرب ہے، اور وہاں کے عوام یمن اور بحرین میں مسلمانوں کے قتل عام کو دیکھ رہے ہیں، لہذا سعودی حکمرانوں کے لئے کسی وقعت اور قدر و قیمت کے قائل نہیں ہیں یا پھر انہیں کم ہی توجہ دیتے ہیں، کیونکہ ان کی حقیقت لوگوں کے لئے عیآں ہوچکی ہے، حتی کہ وینگ شانن نامی سعودی چینل ـ جو بہت بڑا سرمایہ خرچ کرکے چلایا جارہا ہے ـ ناظرین کی تعداد میں شدید کمی آئی ہے۔
سوال: آخر میں اگر کچھ کہنا چاہتے ہیں تو فرمائیں۔
جواب: میں نے تمام مسلمان دوستوں سے کہا بھی ہے اور پھر بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اختلاف اور تفرقے کے خواہاں نہیں ہیں، ہمیں تامل اور تفکر کرنا چاہئے اور ہمیں واقعات و حوادث کے بارے میں بصیر ہوکر گہری نظر رکھنا چاہئے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ نجد و حجاز کے رہنے والے انسان مسلمان نہیں ہیں اور ہمیں یہ حق بھی نہیں پہنچتا، ہم اس مقدس سرزمین پر مسلط سعودی حکام سے اختلاف رکھتے ہیں جو اسلامی حکام کے لبادے میں اپنے ملک کے اندر بےگناہ انسانوں کے قتل کے اسباب فراہم کرتے ہیں، یمن میں ہزاروں انسانوں کو خون میں نہلا رہے ہیں اور بحرین کے عوام کے قتل عام کی حمایت کررہے ہیں۔ رہبر انقلاب امام سید علی خامنہ ای کا یہی پیغام کافی ہے کہ ہم بیدار اور ہوشیار ہوجائیں، ہمیں مسلمانوں کے درمیان اختلاف اور فتنہ انگیزی کے سلسلے میں دشمنوں کی سازشوں سے ہوشیار ہونا چاہئے۔ اللہ تعالی نے چاہا اور یمن اور بحرین کے عوام کا بےرحمانہ قتل عام کرنے والے جلادوں اور قاتلوں کا چہرہ بے نقاب ہوگیا اور وہ اپنا اعتبار اور اپنی حیثیت کھوگئے۔