امریکہ کی مالی امداد سے افغان طالبان کے مستفید ہونے کا انکشاف
سیگار کی رپورٹ کے مطابق, بعض اوقات تو امریکی امداد امریکہ ہی کی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف لڑنے والے لوگوں کے ہاتھوں میں براہ راست چلی جاتی ہے.
خبررساں ادارے تسنیم کے مطابق، امریکہ کی جانب سے بھیجی جانے والی مالی امداد سے افغان طالبان کے مستفید ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔
سپیشل انسپکٹر جنرل فار افغانستان ریکنسٹرکشن (سیگار) کی رپورٹ کے مطابق، امریکی ڈالروں کی مدد سے افغانستان کے تمام حساس اداروں جیسے فوج اور عدلیہ میں اس قدر بدعنوانیت پھیلا دی گئی تھی کہ افغان عوام حکومت کے خلاف ہوتی چلی گئی۔
حتیٰ کہ جب حکومت اس منصوبے سے واقف ہو گئی تب بھی سیکیورٹی کے مسائل اور سیاسی مقاصد کی ترجیحات کی بنا پر بدعنوانیت کے گھوڑے کو لگام ڈالنے میں نہایت سستی سے کام لیا گیا۔
1970 اور 80 کی دہائیوں میں سی آئی اے (سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی) نے افغانستان میں بہت سے بنیادپرست گروہوں کو مشقیں کروائیں جن میں سے کچھ نے طالبان کا روپ دھار لیا۔
یہ بات تو زبان زد عام ہے کہ امریکہ نے لاکھوں ڈالر ان گروہوں کی تربیت، معاونت اور ان کے لئے اسلحہ خریدنے میں پھونک ڈالے جو آج خود امریکہ کے ہی دشمن بنے بیٹھے ہیں۔
2014ء میں افغانستان کو از سر نو تعمیر کرنے کے لئے بھیجے گئے انسپکٹر جنرل نے اس وقت کے دفاعی سیکریٹری چک ہیگل کو لکھے گئے ایک خط میں اس بات کا انکشاف کیا تھا کہ امریکہ زرمت گروپ کے ساتھ کاروباری سرگرمیوں میں ملوث ہے۔
جبکہ زرمت گروپ کو پہلے ہی باغیوں کو بم بنانے والے مواد فراہم کرنے کی پاداش میں دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جا چکا تھا۔
اسی طرح 2014ء میں بھی اوبامہ انتظامیہ کے تحت بھوکے اور بےگھر شامیوں کے لئے بھیجی جانے والی وفاقی امداد بھی دراصل داعش ہی کے ہاتھ مضبوط کر رہی تھی۔
اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے روزنامہ بیسٹ نے لکھا تھا کہ جہاں ایک طرف شام اور عراق میں امریکی جہاز داعش پر بمباری کرتے وہیں دوسری جانب مغرب اور امریکہ کی امداد سے بھرے ٹرک بھی انہی جنگجوؤں کی اعانت کرتے ہیں۔
دکھ کی بات تو یہ ہے کہ امریکہ کی ہی خارجہ پالیسی نے اس کے دشمنوں کی نہ صرف مالی امداد کی بلکہ اپنے ماہرین بھی دیئے۔
امریکہ کے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ داعش کے خطرناک ترین سرغنوں میں سے ایک لشکری سرغنہ 2014 میں ہی امیریکہ کی سرزمین پر تربیت حاصل کر کے گیا ہے۔
یہ بات تو واضح ہے کہ امریکہ کو اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ماضی قریب میں ثابت ہو چکا ہے کہ دنیا آج بھی دہشتگردی کے حوالے سے اتنی ہی غیرمحفوظ ہے جتنی 2001ء میں تھی۔
اب خواہ یہ پالیسی ساز اداروں کی کوتاہی ہے یا اپنے کسی مذموم مقصد کے حصول کی کوشش، لیکن ایک بات طے ہے کہ آج کے امریکی شہریوں کی جان اور مال دونوں ہی خطرے سے دوچار ہیں۔