ایران کی گلیوں میں پاکستانی لعل/ ایک عظیم پاکستانی شاعر کا تعارف + تصاویر
نام حبیب اللہ، تخلص بھیلا حاصل اور تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے۔ مختلف ممالک کا سفر کرنے کے بعد ایران کے شہر مشہد میں مقیم اپنے چھوٹے سے کمرے میں شعر و ادب کا خزانہ جمع کئے ہوئے ہیں۔
پاکستانی شاعر حبیب اللہ بھیلا حاصل کے خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے کو دئے گئے انٹرویو کا متن ذیل میں پڑھئے:
ایسے تو کسی شخص کو ملتا نہیں اعجاز ایک عمر بھٹکتا ہے تو ہوتا ہے سرافرز
کٹ جاتی ہے سب عمر یونہی کھو جو طلب میں تقدیر کا انسان پہ کھل پاتا نہیں راز
(بھیلا حاصل)
میرا نام حبیب اللہ ہے۔ تخلص بھیلا حاصل اور تعلق اسلامی جمہوریہ پاکستان سے ہے۔ 1940ء میں ہندوستان کے صوبہ راجستھان کے ایک شہر چھڑاوے میں پیدا ہوا۔ 1947ء میں پاکستان بننے کے بعد اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان آگیا اور نواب شاہ میں رہنے لگا۔ کئی سالوں کے بعد یہاں سے کراچی منتقل ہوگیا۔ اٹھارہ سال کی عمر میں والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور میں نے کراچی سے ایران کا رخ کیا۔
سب سے پہلے شیراز گیا، دروازہ قرآن، سعدی اور حافظ کی زیارت کی اور پھر مشہد مقدس جاکر پہلی دفعہ مولا رضا علیہ السلام کی قدم بوسی کی سعادت حاصل کی۔ نیز نیشابور اور طوس جاکر خیام، عطار اور فردوسی کے مزارات پر بھی حاضری دی۔
سرگرم تڑپ رکھتا ہے مجھ کو دل بے تاب ہوں تار پہ بینا کے میں چلتا ہوا مضراب
اس کے بعد ایران سے ترکی چلا گیا۔ ترکی سے لبنان اور وہاں سے شام، عراق اور کویت گیا۔ کویت میں "اردو بزم ادب" کا صدر رہا اور اپنی ایک غزل کو "اخبار جہاں" میں چھپوایا جس کا مطلع یہ تھا:
ملتا ہی نہیں دل کو سکون درد جگر سے بے کیف ہی رہتا ہوں ہر ایک شام و سحر سے
کویت سے واپس ایران آگیا۔ یہاں ایک نیک آدمی نے اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے پڑھوا دیا اور اپنے پاس رکھ لیا۔ اس بابرکت زندگی میں میرے تین بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔
میں نے ایران کا ہر شہر چھان رکھا ہے۔ قزوین میں قلعہ الموت، خرم آباد میں قلعہ فلک الافلاک دیکھا۔ تبریز کی سیر کرتے ہوئے شمس تبریزی اور دیگر شاعروں کی مقبروں کی زیارت کی۔
کرمان میں قلعہ، جامع مسجد اور بند بازار دیکھا۔ کرمانشاہ میں طاق بستان دیکھا۔ ایران کے جنوب میں بھی اہواز اور آبادان گیا۔ اس ایران گردی کے بعد اب میں مستقل طور پر مشہد مقدس میں زندگی کر رہا ہوں۔
میں نے بہت سخت زندگی گزاری ہے اور مشکلوں کا مقابلہ کیا ہے تاہم کبھی ہمت نہیں ہاری اور مصیبتوں کے سامنے سر نہیں جھکایا۔
گردش دوراں کے ڈال آنکھوں میں دھول بات سن اس کی، نہ اس کو کر قبول
میرا پیشہ مصوری ہے اور جہاں بھی رہا ہوں یہی کام کرتا رہا۔ میں نے یہ فن نوجوانی میں ایک ماہر استاد ظہور احمد صاحب سے سیکھا اور پاکستان میں بھی مصوری کرتا رہا۔ فطرت کی خوبصورتی پر مصوری کرنا میرا انتہائی شوق ہے۔
میں موسیقی بھی جانتا ہوں۔ بہت سے شاگرد پاس آکر بیٹھتے ہیں، سکھاتا رہتا ہوں۔
بچپن سے شعر و شاعری اور داستانیں میرے ذہن میں آتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ شعر کہنے لگا اور مشاعروں میں شرکت کرنے لگا۔ اردو میں سب سے پہلے مرزا غالب کا دیوان میرے ہاتھ آیا جسے پڑھتا رہا۔ کلیات اقبال کو پڑھ کر ان کو ایک رہنما کی طرح تسلیم کیا اور اس رہنمائی سے میں نے بہت کچھ حاصل کیا۔ اردو شعراء میں میر تقی میر اور داغ دہلوی کو پسند کرتا ہوں۔
آکے سجادہ نشین قیس ہوا میرے بعد نہ رہی دشت میں خالی کوئی جا میرے بعد (میر)
عذر آنے میں بھی ہے اور بھلاتے بھی نہیں باعث ترک ملاقات بتاتے بھی نہیں (داغ)
فارسی میں فردوسی، خیام، ناصر خسرو، سنائی، خاقانی، خواجوی کرمانی، نظامی عطار، عراقی، سعدی، حافظ، مولوی، غزلیات شمس اور بھی بہت سے شاعروں کے کلام کو پڑھا ہے۔
بو علی سینا، ابو ریحان البیرونی، زکریا رازی، خواجہ نصیر الدین طوسی اور دیگر دانشوروں کی کتب کا بھی مطالعہ کیا ہے۔
بڑے شاعروں کے کلام پڑھتے پڑھتے میں خود بھی شعر کہنے لگا۔ ل؛اسیکی شعر کہتا ہوں۔ غزل قصیدہ، رباعیات، تک بیتیاں، مناظرہ کی شکل میں نصیحت آمیز حکایات کہتا ہوں۔
درویشانہ مزاج کا آدمی ہوں اور اس رنگ برنگی فطرت میں پھول اور کانٹے دونوں کی ایک ہی جیسے پرستاری کرتا ہوں۔
پہلی دفعہ جب ایران کے شہر مشہد میں محترم قونصل جنرل جناب یاور عباس صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان کو میرا ذوق شعری معلوم ہوا تو انہوں نے میرے مجموعہ کلام کو چھپنے کا مشورہ دیا۔ اس کے بعد انہوں نے کمپوزنگ میں بے حد تعاون کیا۔ امید ہے کہ اس کتاب کے چھپنے میں بھی وہ بھرپور تعاون کریں گے۔ ان کی شفقتوں کا اس شعر سے شکریہ ادا کرتا ہوں:
تیرا کرم شریک جاں، تیری نگاہ مہرباں ورنہ میری بساط کیا، تو جو نہیں تو میں کہاں
تیرا تصور جمیل، میرے خیال کی بہشت میری نظر کی جستجو، صرف تیری تجلیاں
(بھیلا حاصل)