پاک ایران دوستی؛ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے فوجی اور اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہونے چاہئیں
پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار شاہد امین نے صدر روحانی کا پاکستان کی سلامتی کے بارے میں بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے تاکید کی ہے کہ پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ایران سے اچھے تعلقات نہ چاہتا ہو جبکہ دونوں ممالک کی اعلیٰ ترین سیاسی قیادت فیصلہ کرتے ہوئے ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے نئے دور کا آغاز کریں اور فوجی اور اسٹرٹیجک تعلقات کو مضبوطی سے استوار کریں۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: شاہد امین کا نام پاکستان ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سفارتی حلقوں میں بھی بڑا معروف ہے۔ پاکستان کے سابق سینیئر سفارتکار شاہد امین نے تسنیم خبر رساں ادارے کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ پاکستان ایران سے تعلقات قائم کرنے میں ہمیشہ سنجیدہ رہا ہے اور پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں جو ایران سے اچھے تعلقات نہ چاہتا ہو۔
انہوں نے تاکید کی کہ ایران کی قیادت کو یہ سمجھنا ہوگا کہ کسی تیسرے ملک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات ایسے نہیں ہیں کہ جو ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات پر منفی اثرات ڈال سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ امریکا یا سعودی عرب کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی اپنی منطق ہے لیکن ایرانی قیادت یہ دیکھے کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات اس وقت قائم ہوئے تھے جب وہ ایران کا بھی دوست اور اتحادی ملک تھا۔
انہوں نے وضاحت کی کہ افغانستان کی طالبان حکومت کے ساتھ بھی نظریاتی نوعیت کے تعلقات نہ تھے بلکہ پاکستان کے محض جیو اسٹرٹیجک مفادات وابستہ تھے۔ طالبان حکومت سے نہ محبت تھی نہ ہی نفرت۔ پاکستان اس دور میں بعض فیصلوں پر مجبور تھا، ایرانی قیادت کو یہ نکات سمجھنے چاہئیں۔
انہوں نے یہ انکشاف بھی کیا کہ جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دور میں پاکستان نے عراق کی مسلط کردہ جنگ کے دوران ایران کی فوجی مدد بھی کی تھی اور خلیجی عرب ممالک اس فوجی مدد کی وجہ سے پاکستان سے ناراض بھی ہوئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے دل میں ہمیشہ سے یہ جذبہ رہا ہے کہ ایران کے ساتھ بہترین تعلقات ہونے چاہئیں کیونکہ ایران ہمارا قدرتی دوست ہے۔
انہوں نے زور دیا کہ ماضی کی تلخیوں کو فراموش کرکے نئے دور کا آغاز ہونا چاہیے۔ فوجی اور اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہونے چاہئیں۔ اعلیٰ ترین سیاسی قیادت ایک فیصلہ کرلے۔ صدر حسن روحانی کا دورہ بہت اہمیت کا حامل تھا۔ دونوں ملکوں کی اعلیٰ سیاسی قیادتوں کے دوروں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافے کی ضرورت ہے اور وفود کے تبادلے بھی زیادہ سے زیادہ ہونے چاہئیں۔ سیاسی، اقتصادی، سماجی، ثقافتی تعلقات ہونے چاہئیں۔ ای سی او کو فعال ہونا چاہیے۔ دوطرفہ اور علاقائی سطح کے تعلقات بھی مضبوط ہونے چاہئیں۔
ان سے کئے گئے اہم سوالات و جوابات تفصیل کے ساتھ من و عن پیش کئے جارہے ہیں۔
تسنیم:آپ ایک سینیئر سفارتکار کی حیثیت سے پاکستان کے لئے خدمات انجام دے چکے ہیں۔ آپ ان تعلقات کو کس نظر سے دیکھتے ہیں؟
شاہد امین: جب پاکستان بنا تو اسے صرف بھارت سے جارحیت کا خطرہ تھا۔ ہم نے بیرونی خطرے سے نمٹنے کے لیے بیرونی دنیا کی طرف دیکھا۔ یہی وجہ بنی کہ امریکا، برطانیہ، ایران و ترکی وغیرہ کے ساتھ ہم فوجی اتحاد کا حصہ بن گئے۔ لیکن یہاں یہ یاد رکھنا ہوگا کہ 1950ء کے عشرے کے حالات وہ نہیں ہیں جو 2016ء کے ہیں۔ اس اتحاد کی وجہ سے ہمارے ایران اور ترکی کے ساتھ خصوصی تعلقات قائم ہوگئے تھے۔ موجودہ تناظر میں بات کی جائے تو یہ سمجھنا ہوگا کہ شخصیات کے کردار کو overplay نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارا تعلق اس وقت بھی ایران سے تھا۔ یعنی دوستی ایران سے تھی شخصیات سے نہیں تھی۔ دوستی ملکوں کے درمیان ہوتی ہے، شخصیات کے مابین نہیں۔ ایران کے ساتھ ہمارا 1947ء سے 1970ء تک کا دور قریبی اور خصوصی تعلقات کا دور تھا۔ بالخصوص سیاسی اور فوجی اعتبار سے، ایران نے ہمارا بھرپور ساتھ دیا۔ دو ملکوں کے درمیان دوستی کی اہم مثال جنگوں میں ان کا موقف اور عمل ہوتا ہے۔ اس زاویے سے دیکھیں تو وہ بہت اچھا دور تھا۔ بہت سے لوگ اس دور کو یاد کرکے کہتے ہیں کہ ویسے ہی تعلقات ہونے چاہئیں۔ لیکن ہر دور کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ اس دور میں مشرقی پاکستان ہمارا حصہ تھا، اب نہیں ہے۔ 1965ء اور خاص طور پر 1971ء کی جنگوں میں ایران نے بہت ساتھ دیا تھا۔
تسنیم: 1970ء یا 1971ء تک کی صورتحال تو آپ نے بتادی، پھر کیا تبدیلی رونما ہوئی اور کیوں ہوئی؟
شاہد امین: ہم بیک وقت جنوبی ایشیاء، وسطی ایشیاء اور مشرق وسطیٰ، تینوں کا حصہ ہیں۔ 1971ء کی جنگ اور سقوط ڈھاکہ نے ہماری حیثیت پر منفی اثر مرتب کئے۔ دوسری جانب عالمی منڈی میں تیل کی قیمت ڈیڑھ ڈالر فی بیرل سے بڑھ کر یکایک 11 ڈالر تک جا پہنچی جس سے ایران میں بے تحاشا دولت آنے لگی تو وہاں یہ احساس ہونے لگا کہ ہم تو دولتمند ملک ہیں۔ شاہ ایران کی پوزیشن دوستانہ و برادرانہ سے زیادہ سرپرستانہ ہونے لگی۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کے بعد بلوچستان کے بارے میں دنیا میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں تو شاہ ایران نے ایک ایسا بیان دیا جو پاکستان کے خلاف تھا۔ یہ غالباً 1973-74 کی بات ہوگی۔
تسنیم:کیا اس کے علاوہ بھی شاہ ایران نے منفی اشارے دئے تھے؟
شاہد امین: پاکستان میں اسلامی سربراہی کانفرنس ہورہی تھی۔ پوری دنیائے اسلام یکجا ہورہی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے حکمران تھے اور ان کے لیبیا کے معمر قذافی سے خصوصی تعلقات تھے۔ لیبیا نے بھی 1971ء میں بھارت کے خلاف پاکستان کی مدد کی تھی۔ اسلامی سربراہی کانفرنس میں قذافی کا شاندار استقبال ہوا لیکن ایران میں اس کا نتیجہ اچھا نہیں نکلا۔ شاہ ایران نے اس میں شرکت کے لئے آنے سے ہی انکار کردیا کیونکہ شاہ ایران کے لیبیا کے قذافی کے ساتھ تعلقات اچھے نہ تھے۔
تسنیم:یہ تو ہوا شاہ ایران کے دور کے تعلقات، انقلاب اسلامی ایران کے بعد کے تعلقات بھی آپ کی سفارتکاری کے دور میں آپ نے بچشم خود ملاحظہ کئے۔ پھر ان تعلقات کی نوعیت کیسی رہی؟
شاہد امین: جی بالکل۔ انقلاب کے وقت سے ذرا پہلے میں ایران میں نائب سفیر تھا۔ ہم اپنی آنکھوں سے انقلاب برپا ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ ہم نے اسلام آباد میں اپنی حکومت کو سفارش کی کہ اب یہ نوشتہ دیوار ہے کہ انقلابی کامیاب ہورہے ہیں لہٰذا تعلقات کو مضبوط کیا جائے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ انقلابیوں نے مملکت ایران کا نام ہی جمہوری اسلامی ایران رکھ دیا جس سے ہم خوش ہوئے کیونکہ ہمارا ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان تھا اور ایران کا نام بھی ہمارے نام کی طرز پر جمہوری اسلامی ہوچکا تھا۔ ایک اس نام کا اثر اور دوسرا انقلاب اسلامی برپا کرنے والوں میں علامہ اقبال کا اثر و رسوخ، یہ دونوں ملکوں کے مابین مشترکہ نکات تھے۔ ہم نے بھی کوشش کی کہ ان تعلقات میں اضافہ ہو لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ایران کی مخصوص سوچ تھی۔ امریکا شیطان بزرگ تھا جبکہ پاکستان کے ساتھ امریکا کے تعلقات تھے، یہ بات سرد مہری کی بنیاد بنی۔ حالانکہ پاکستان امریکا تعلقات کی اپنی سرد تاریخ ہے۔ اس وقت جمی کارٹر کی حکومت تھی جسے پاکستان میں فوجی حکومت کے ہونے پر اعتراض تھا اور ساتھ ہی پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کا بھی امریکا مخالف تھا۔ امریکا ہمیں ناپسند کرتا تھا اور ہم پر پابندیاں بھی عائد کردی گئیں تھیں۔ معلوم نہیں کہ ایران نے ان نکات پر غور کیا تھا یا نہیں۔ دوسرا فیکٹر یہ بھی تھا کہ شاہ ایران کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا حالانکہ شاہ ایران سے ذاتی تعلقات نہ تھے۔ ہماری دوستانہ تعلقات کی خواہش میں ہمیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔
تسنیم:ایران عراق جنگ کے دوران پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کیسی تھی؟ پاکستان نے کیا کردار ادا کیا؟
شاہد امین: ان تعلقات میں اہم موڑ آیا تھا۔ ایران عراق جنگ کے ساتھ ساتھ آپ یہ بھی دیکھیں کہ افغانستان پر روس نے قبضہ کرلیا تھا۔ ایران بھی قبضے کے خلاف تھا۔ ایرا ن اور پاکستان دونوں کی ہمدردیاں افغانستان کے عوام کے ساتھ تھیں۔ لیکن دونوں ملکوں میں وہ یکجہتی نہیں ہوسکی جو ہونی چاہیے تھی۔ ہم ابھی تک اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ لیکن اس وقت کی صورتحال یہ تھی کہ ساری دنیا سوویت یونین کی مخالف تھی۔ یورپی ممالک، چین، جاپان سبھی تو مخالف تھے۔ امریکا اور پاکستان نے کوآرڈی نیشن کرکے افغانستان کی فوجی مدد کی۔ ایران کو امریکا کے اس کردار پر شکوک و شبہات تھے۔ پاکستان اور ایران دونوں اس جہاد کے حامی تھے لیکن ایران میں خدشہ تھا کہ امریکا کوئی کردار کیوں ادا کررہا ہے۔ اس کے باوجود ایران عراق جنگ کے دوران جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے حوصلے کے ساتھ فیصلہ کیا۔ انہوں نے ایران کی حمایت پر مبنی موقف اپنایا جس میں فوجی مدد بھی شامل تھی۔
تسنیم:کیا واقعی؟ کیا جنرل ضیاء الحق کی حکومت نے ایران کی فوجی مدد بھی کی تھی؟
شاہد امین:بالکل۔ پاکستان کی جانب سے فوجی مدد ہوئی۔ اس سے خلیج کے عرب ممالک سے ہمارے اچھے تعلقات پر منفی اثرات مرتب ہوئے تھے۔ عرب ہم سے ناراض ہوگئے تھے۔ عرب ممالک نے ہمارے اس موقف اور فوجی مدد کا بہت برا منایا۔ ہمیں امید تھی کہ ایران سے ہمارے تعلقات اچھے ہوجائیں گے۔ پھر ہم نے سیاسی طور پر او آئی سی کے سفارتی مشن میں خود ایران کے دورے کئے۔ فوجی صورتحال یہ تھی کہ ایران عراق میں گھس چکا تھا۔ ایران کا offensive تو تین سال بعد شروع ہوا تھا۔ ہم تو جنگ بندی چاہتے تھے۔ جب ایران نے فوجی غلبہ حاصل کرنا شروع کیا تو عراق کی طرف سے کمزوری کا احساس کیا گیا اور صدام حکومت نے چاہا کہ رعایت دے کر اس معاملے سے خود کو باہر نکالے۔ لیکن ایران راضی نہیں ہوا۔ حالانکہ عراق جرمانہ (معاوضہ) کی ادائیگی اور شط العرب پر ایران کے موقف کو تسلیم کرنے پر راضی ہوگیا تھا۔ پاکستان ثالثی کررہا تھا۔ وہ اچھی شرائط تھیں اور ایران کے حق میں تھیں لیکن اس وقت ایران راضی نہیں ہوا۔ 1988ء میں جنگ تو ختم ہوگئی لیکن ایران کو (جرمانے یا معاوضے) کی مد میں کچھ بھی نہیں ملا۔
تسنیم:آپ کی نظر میں 1990ء کے عشرے میں ان تعلقات میں کوئی خاص تبدیلی رونما ہوئی یا معاملات جوں کے توں رہے؟
شاہد امین: 1990ء کے عشرے میں طالبان کا ظہور ہوا اور بدگمانیاں پھیلیں۔ فرقہ واریت کا ایشو اٹھایا گیا۔ ایران کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان میں سنی شیعہ مسئلہ کبھی نہیں رہا۔ ہمارے ملک کے تو بانی قاعد اعظم محمد علی جناح ہی شیعہ مسلمان تھے۔ پھر صدر آصف علی زرداری، بری فوج کے سربراہ جنرل موسیٰ اور جنرل یحیٰ خان اور پاک فضائیہ کے سربراہ مصحف علی میر وغیرہ سمیت اہم عہدوں پر بھی شیعہ رہے ہیں۔ طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات مجبوری تھی۔ ہم میں کوئی مطابقت نہیں تھی۔ ہمارے مشرق میں بھارت ایک دشمن ملک تھا۔ مغرب میں افغانستان ہمارا پڑوسی ملک تھا۔ ہمارے قبائلی و تجارتی مسائل بھی تھے لہٰذا مغرب کی سرحد پر ہمارے جیو اسٹرٹیجک مفادات یہ تھے کہ بحالت مجبوری طالبان حکومت کو تسلیم کیا جائے۔ جیسے شاہ ایران بھی تو ایران میں اقتدار پر قابض ہوگئے تھے تو ہم کیا کرسکتے تھے؟ تعلقات ممالک کے ہوتے ہیں شخصیات کے نہیں۔ طالبان کے ساتھ ہمارے بہت اچھے تعلقات تو نہیں تھے۔ بلکہ سفارتی تعلقات تھے اور آنے جانے کا سلسلہ جاری تھا۔ ایران کے مفادات سے طالبان مطابقت نہیں رکھتے تھے، ایران کا جھکاؤ شمالی اتحاد کی طرف تھا۔ لہٰذا وہ افغانستان کی طالبان حکومت کے دور میں ہماری پالیسی پر شک و شبہ کا اظہار کرتے رہے۔ حالانکہ ہمیں نہ طالبان سے محبت تھی نہ ہی نفرت۔ ہمارا کوئی نظریاتی تعلق نہیں تھا۔ افغان طالبان کی ہم بالکل حمایت نہیں کرتے لیکن وہ حکومت میں تھے۔ ایران میں اس چیز کو اس نظر سے نہیں دیکھا گیا کہ پاکستان بعض فیصلوں پر مجبور تھا۔ ہمارے جیو اسٹرٹیجک مفادات کا تقاضا یہی تھا۔ ایران میں بعض نکات پر جو رائے وہ اپنی جگہ لیکن پاکستان نے عمداً کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی جو ایران کو ناگوار گذرے۔ ہمارے دل میں ہمیشہ سے یہ جذبہ رہا ہے اور رہے گا کہ ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات اچھے ہوں کیونکہ ایران ہمارا قدرتی دوست ہے۔ لیکن ایران کو بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ بھارت کی طرف اس کا جھکاؤ بھی پاکستان سے دوری کا سبب بن سکتا ہے۔ 2003ء میں بھارت کے ساتھ خاتمی حکومت نے پینگیں بڑھائیں اور اسے اسٹرٹیجک الائنس کا نام دیا تھا جبکہ اس وقت وہ پاکستان کے ساتھ کشیدگی بڑھا رہا تھا، بھارت کشمیر کا غاصب ہے۔
تسنیم:ایران بھی کشمیریوں کا حامی ہے۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے حق میں بیانات دیتا ہے؟
شاہد امین:ہمیں ایران کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ کوئی مسئلہ وجود رکھتا ہے۔ ایرانی رائٹرز بھارت کے حق میں پاکستان کے خلاف لکھتے ہیں۔ ایران یہ یاد رکھے کہ اگر بھارت نے پاکستان پر غلبہ حاصل کرلیا تو وہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ اس کی زد پر ایران بھی آئے گا۔ مسئلہ اسلام کا ہے اور اسلامی ممالک کا ہے۔ قذافی نے پاکستان کو مشرق میں اسلام کا قلعہ کہا تھا۔ ایرانی جب اسلامی یکجہتی کی بات کرتے ہیں اور اسے اہمیت دیتے ہیں تو مسئلہ کشمیر کو فراموش نہ کریں۔ میں خود 1993ء تا 1997ء او آئی سی میں پاکستان کا سفیر رہ چکا ہوں۔ تب ایران میں ہاشمی رفسنجانی کی حکومت تھی تو ایران کے سفارتکار خاموش رہتے تھے۔ کشمیری مسلمان تھے ان کے لئے ہمدردی کے دو بول بول دیتے تو کیا ہوجاتا؟
تسنیم: لیکن رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی امام خامنہ ای نے کشمیر کے حق میں بہت کچھ کہا ہے جس پر بھارتی حکومت نے اعتراض بھی کیا تھا؟ ایران کے ٹی وی چینل کی کشمیر کوریج پر اعتراض کرکے اس پر پابندی بھی لگادی گئی تھی؟ پاکستان کے ممتاز سفارتکار جمشید مارکر نے بھی اپنی کتاب Quiet Diplomacy میں لکھا تھا کہ عرب ممالک اور مشرقی ایشیائی مسلم ممالک کے سفارتکاروں نے او آئی سی میں پاکستان کا ساتھ نہیں دیا تھا۔
شاہد امین: میں اپنی سفارتکاری کے دور کے بعض واقعات کی بات کررہا ہوں جو میں نے خود دیکھا۔ دیگر ممالک کے رویے کی بات بھی اپنی جگہ درست ہے لیکن جس ملک کا مفکر ڈاکٹر علی شریعتی علامہ اقبال کا عاشق ہو، جس انقلاب میں علامہ اقبال کے افکار و نظریات کو اہمیت حاصل ہو، اس سے ہماری توقعات زیادہ ہونا فطری بات ہے۔ یہ بھی دیکھیں کہ ہم کسی کو پاکستان میں ایرانی سفارتخانے کے باہر مظاہرہ نہیں کرنے دیتے لیکن ایران میں پاکستانی سفارتخانے کے باہر مظاہرے کرنے دئے گئے۔
تسنیم: طالبان حکومت کے بعد پاکستان ایران تعلقات اکیسویں صدی میں داخل ہوگئے۔ تب سے اب تک اور خاص طور پر صدر روحانی کے دورے کے بعد کی فضا ء کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟
شاہد امین: بنیادی بات یہ ہے کہ ہم مسلمان ممالک کو اہمیت دیتے ہیں اور ان کے درمیان جنگ کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ طالبان کے دور میں نائن الیون ہوگیا۔ امریکا کا افغانستان پر قبضہ ہوگیا۔ پاکستان کے پاس کوئی آپشن نہیں تھا۔ طالبان کی خاطر ہم خود کو داؤ پر نہیں لگا سکتے تھے۔ چین، سعودی عرب، ترکی، مصر وغیرہ یہ سبھی طالبان کے خلاف تھے۔ اس لئے ہم نے بھی اپنے مفاد میں فیصلے کئے۔ خیر، صدر حسن روحانی کے دورے سے بہتری آئی ہے۔ باوجود اس کے کہ کلبھوشن کا معاملہ ہوگیا لیکن ایرانی صدر کا دورہ بے حد اہم تھا۔ ہماری کراچی کونسل آن فارین ریلیشنز کے پروگرام میں ایرانی نائب وزیر خارجہ کاظم سجاد پور نے خطاب کیا۔ ان سے گفتگو بہت اچھی رہی۔ انہوں نے مغالطوں کو دور کیا۔ ان کی اپروچ بہت اچھی تھی۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں ایک دوسرے کے اسٹرٹیجک concerns کو سمجھنا ہوگا، تلخیوں کو دور کرنا ہوگا۔ ہم سبھی ان کی باتوں سے خوش ہوئے کہ واقعاً اگر ایران ہمیں دوست اور بھائی قرار دیتا ہے تو یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے۔
تسنیم: آپ تجویز کریں کہ پاکستان ایران تعلقات کیسے اپنی بلند ترین سطح پر پہنچ سکتے ہیں، اس کے لئے دونوں ممالک کو کیا کرنا ہوگا؟
شاہد امین: جی بالکل۔ سب سے پہلے تو دونوں ملکوں کی سیاسی قیادت یہ فیصلہ کرلیں کہ تعلقات کو بڑھانا ہے۔ اعلیٰ ترین سیاسی قیادت کیwill political ہو۔ راسخ و مصمم عزم ہو کہ ان تعلقات بلند ترین سطح پر لے کر جائیں گے۔ ہماری اور آپ کی سطح پر بھی تعلقات استوار ہونے چاہئیں اور حکومتی سطح پر بھی۔ وفود کا متواتر تبادلہ ہونا چاہئے، ہر سطح پر وفود کا تبادلہ اور زیادہ سے زیادہ تبادلہ۔ اعلیٰ ترین قیادت کی سطح کے دوروں کی تعداد میں بھی بہت زیادہ اضافہ ہونا چاہیے۔ افغانستان کو پاکستان ایران تعلقات پر اثر انداز نہیں ہونا چاہیے۔ سیکیورٹی تعلقات میں زیادہ linkages ہونی چاہیے۔ امریکا کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اس وقت سے ہیں جب اس کے ایران کے ساتھ زیادہ دوستانہ تعلقات تھے لہٰذا اس تعلق یا سعودی عرب کے ساتھ ہمارے تعلق کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ ایران کو ان کی وجہ سے اہمیت نہیں۔ ان تعلقات کے باوجود ہم نے ایران کو کبھی بھی دور نہیں کیا۔ صدرحسن روحانی کا دورہ بہت ہی اہم دورہ تھا۔ خاص طور پر انکا بیان کہ پاکستان کی سلامتی کو اپنی سلامتی سمجھتے ہیں اور ایران کی سلامتی کو پاکستان کی سلامتی۔ یہ بہت اہم بیان ہے۔ اس پر توجہ کی جانی چاہیے اور یہی تعلقات میں بہتری کی بہترین بنیاد ہے۔
تسنیم:ایران کے ساتھ دفاعی اور اسٹرٹیجک معاہدے ہونے چاہئیں، ماضی میں اس کی کوئی مثال ملتی ہے؟
شاہد امین:جی بالکل۔ پاکستان اور ایران کا 1950ء میں دو طرفہ دفاعی معاہدہ تھا۔ اگر ایران آج پاکستان کے ساتھ فوجی معاہدے اور اسٹرٹیجک الائنس کے لئے تیار ہیں تو بہت اچھی بات ہے، ضرور ہونے چاہئیں۔ یہ بڑی خوشی کی بات ہوگی۔ لیکن کیا ایران اس پر آمادہ ہوگا کیونکہ پاکستان کے ساتھ دفاعی و عسکری معاہدوں کے نتیجے میں بھارت ایران سے ناراض ہو جائے گا۔ کیا ایران بھارت کو ناراض کرکے پاکستان کے ساتھ یہ معاہدے کرلے گا؟ آپ یہ دیکھیں کہ ایران 2003ء سے تربیت کے لئے فوجی افسران بھارت بھیجتا ہے۔ پاکستان کیوں نہیں بھیجتا؟ آپ کہتے ہیں کہ کیونکہ ایرانی کیڈٹس کو اسلام آباد میں شہید کیا گیا، تو کیا اس دور میں مصری سفارتخانے پر حملہ نہیں ہوا۔ چین اور دیگر ممالک کے افراد پاکستان میں قتل نہیں ہوئے۔ کیا کسی نے اس کو جواز بناکر اپنے افراد بھیجنا بند کردیے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کی ریاست عمداً کسی کا نقصان چاہتی ہے۔ ایسا ہرگز نہیں۔کسی ملک میں فوجی تربیت کا اس ملک پر اثر پڑتا ہے، تربیت یافتہ فوجی اس ملک کو اہمیت دیتا ہے جہاں اس کی تربیت ہوئی ہو۔ اگر پاکستان میں ایرانی فوجی تربیت حاصل کریں گے تو وہ پاکستان کو اہمیت دیں گے۔ ایسا نہ ہو کہ ایران بھارت میں تو ایک ہزار زیرتربیت فوجی بھیج دے اور پاکستان میں اکا دکا بلکہ ایران پاکستان کو زیادہ اہمیت دے۔ دونوں ملک ایک سیاسی فیصلہ کریں کہ کسی صورت ایک دوسرے کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں کرسکتے۔ یہ کوئی مشکل فیصلہ نہیں۔ لیکن یہ تلخیاں ساری ماضی کی چیزیں ہیں۔ یہ مصدقہ بات آپ کو بتادوں کہ پاکستان میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں کہ جو ایران سے تعلقات نہ چاہتا ہو۔ سبھی اچھے تعلقات کے خواہاں ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ ایک مرتبہ جب موجودہ رہبر معظم جو اس وقت صدر تھے، 1984ء کی بات ہے۔ تب انہوں نے ہمیں بتایا تھا کہ انہوں نے دکتر اقبال لاہوری پر ایک کتاب بھی لکھی تھی۔ یعنی ہمارے علامہ اقبال کے بارے میں۔ ہمیں بتایا گیا کہ ڈاکٹر علی شریعتی بھی علامہ اقبال کے مداح تھے۔ (اس موقع پر قہقہہ لگاتے ہوئے شاہد امین صاحب نے کہا کہ) اب رابندر ناتھ ٹیگور تو ایران اور بھارت کا مشترکہ نکتہ نہیں ہوسکتا اور بھارت سے موازنہ کریں تو پاکستان ہی ایران کا فطری اتحادی اور دوست ہوسکتا ہے۔ دونوں ملک کمزور اور منفی نکات کی بجائے ان ٹھوس اور مضبوط باتوں کو لے کر آگے چلیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ دونوں ملکوں کی ناکامی و ناسمجھی بھی رہی ہے کہ دونوں ملک غلط فہمیوں کو اور فروعی مسائل کو لے کر بیٹھ گئے جبکہ مضبوط نکات زیادہ تھے۔ میرے نزدیک بھارتی جاسوس کلبھوشن کا معاملہ بھی بہت چھوٹی سی بات ہے اگرچہ کہ یہ ناگوار ہے لیکن چھوٹی سی بات ہے اس کو بڑھانا نہیں چاہیے۔ اسی طرح ایران بھی جنداللہ کے معاملات کی وجہ سے پاکستان کے بارے میں ایسا رد عمل نہ دکھائے بلکہ مل جل کر مضبوط و مستحکم تعلقات کی ازسرنو بنیاد رکھیں۔