ایران میں اردو تدریس کے پچیس سال/ فارغ التحصیل طلباء مکمل طور پر اردو ادب سے آشنا ہوتے ہیں


ایران میں اردو تدریس کے پچیس سال/ فارغ التحصیل طلباء مکمل طور پر اردو ادب سے آشنا ہوتے ہیں

ایران کے نامور سکالر اور تہران یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر کا کہنا ہے کہ ایران میں اردو تدریس کا آغاز بیس پچیس سال قبل ہوا ہے، یونیورسٹیوں میں پاکستانی نصاب پڑھایا جاتا ہے جبکہ ہمارے فارغ التحصیل طلباء مکمل طور پر اردو ادب سے واقف ہوتے ہیں۔

ایران کے نامور سکالر اور تہران یونیورسٹی میں شعبہ اردو کے صدر ڈاکٹر علی بیات ان دنوں پاکستان کے دورہ پر ہیں، تسنیم نیوز نے اہم موضوعات پر ڈاکٹر علی بیات کا انٹرویو کیا، جو پیش خدمت ہے۔

تسنیم نیوز: دورہ پاکستان کیسا رہا، کیا اہم امور انجام پائے؟

ڈاکٹر علی بیات: جہاں تک تعلق ہے دورہ پاکستان کا تو میں پاکستان کو اپنا وطن ثانی سمجھتا ہوں، میں اپنے ہی گھر آگیا ہوں، یوں سمجھیں، بہت خوشی ہو رہی ہے، دو تین سال کے بعد مجھے پاکستان آنے کا موقع ملا ہے، اگرچہ راولپنڈی اسلام آباد میں میرا قیام نہیں تھا، یہاں بہت اچھے دوست ہیں، ان سے ملاقات کا موقع ملا، اور جس کام (آموزش دورہ فارسی برائے مترجمین) کے لئے آیا تھا وہ کامیابی کے ساتھ انجام پا گیا ہے۔

تسنیم نیوز: راولپنڈی میں فارسی سے اردو اور اردو سے فارسی مترجمین کے لئے ایک کورس اختتام پذیر ہوا، ترجمہ کے معیار کو مطلوبہ سطح تک لیجانے کے لئے کیا اقدامات ضروری ہیں؟

ڈاکٹر علی بیات: دیکھیں میں نے یہ بات یہاں آکر سنی ہے، بدقسمتی سے موقع نہیں ملا کہ ترجمہ شدہ کتب کا مطالعہ کروں، جس انجمن کے بارے میں تجویز پیش کی ہے، اگر یہ انجمن بن جائے تو اس کے تحت ایسی معیاری ترجمہ شدہ کتب تیار ہو سکیں گی جو بہت ہی معیاری ہوں گی۔ چاہیے کہ جانچ پڑتال کرکے برے اور اچھے ترجمے میں تمیز کی جائے۔ امید ہے کہ جو دوست ترجمہ کرتے ہیں، وہ اس پر غور کریں گے، کہ کیا متعلقہ موضوع پر ان کی گرفت ہے یا نہیں۔

تسنیم نیوز: ہم دیکھتے ہیں کہ آپ تہران یونیورسٹی میں شعبہ اردو کی سربراہی کر رہے ہیں، ہمیں بتائیے کہ اردو سیکھنے والوں کے لئے کس کس طرح کے کورسز دستیاب ہیں، اور اردو یا فارسی سیکھنے والوں کے لئے مستقبل میں کیا سکوپ موجود ہے؟

ڈاکٹر علی بیات: ایران میں اردو تدریس کا آغاز بیس پچیس سال قبل ہوا ہے، ایران میں اردو کی تعلیم اس قدر پرانی نہیں ہے، ہمارے نوجوان اس زبان میں دلچسپی لیتے ہیں، پڑھتے ہیں، مختلف اداروں میں انہیں نوکری بھی مل جاتی ہے، ترجمے کے کام میں بھی ہمارے چند طلباء کام کر رہے ہیں، ہم وہی نصاب پڑھا رہے ہیں جو پاکستان کی مختلف یونیورسٹیوں میں پڑھایا جا رہا ہے، بی اے میں دو سال زبان آموزی ہے،  اسی طرح ایم اے اردو میں ہمارے طلباء و طالبات وہ کورسز پڑھتے ہیں جو پاکستان میں ایم اے اور ایم فل میں شامل ہیں۔ یعنی ہمارے فارغ التحصیل طلباء مکمل طور پر اردو ادب سے واقف ہوتے ہیں۔

تسنیم نیوز: پاکستان میں فارسی زبان کے ساتھ دوستی رکھنے والوں کے لئے کیا پیغام دینا چاہیں گے؟

ڈاکٹر علی بیات: میرا پیغام یہی ہے کہ وہ اپنی دوستی کو مزید مضبوط بنائیں، اور مضبوط بنانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اگر ان کو فارسی آتی ہے تو جس موضوع میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں اس موضوع پر ایک دو کتابوں کا اردو میں ترجمہ کریں تاکہ پاکستان کی نئی نسل اپنی جڑ سے اپنی اصلیت سے اور مشترکہ ثقافت سے آگاہ ہو سکیں۔

اہم ترین انٹرویو خبریں
اہم ترین خبریں
خبرنگار افتخاری