سعودی اتحاد کا بنیادی کام سعودیہ کا دفاع ہے/ ایران، مصر اور ترکی کے بغیر اسلامی اتحاد غیر موثر ہوگا
معروف دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر حسن عسکری کا کہنا ہے کہ 39 اسلامی ممالک پر مشتمل سعودی اتحاد جو سعودیہ کے دفاع کیلئے تشکیل دیا گیا ہے، کوئی پریکٹیکل پروجیکٹ نہیں ہے جبکہ دوسری جانب ایران، پاکستان اور مصر کی عدم شمولیت اس اتحاد کو غیر موثر بناتا ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں، وہ سینیئر تجزیہ کار، دانشور اور کالم نگار ہیں جامعہ پنجاب لاہور میں شعبہ پولیٹیکل سائنس میں بحیثیت پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سیاست پر بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں۔ عالمی حالات بالخصوص مشرق وسطی کی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ "تسنیم نیوز" نے لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔
تسنیم نیوز: روس کے صدر ولادی میر پیوٹن کے مطابق چین اور روس دنیا کو ایک نیا ورلڈ آرڈر دے سکتے ہیں تو کیا نیو آرڈر ورلڈ مغرب سے پھر چائنہ کی طرف آتا نظر آرہا ہے کیا ایسا ہوگا اگر ایسا ہوا تو کیا پرامن ہوگا یا جنگ سے ہوگا؟
ڈاکٹر حسن عسکری: ہمارے ہاں کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ امریکہ ختم ہورہاہے ہاں البتہ امریکہ کی 1992والی حیثیت نہیں رہی ہے امریکہ کی دنیا کی سب سے بڑی اکانومی ہے اقتصادی طور پر امریکہ کے مسائل ہیں اس کا قرضہ بھی ہے لیکن پھر بھی قرضہ مل جائے گا۔ امریکہ مشکلات میں ہے لیکن دنیا میں کمانڈنگ نہیں کر پارہا اس لئے وہ یورپ، روس، سعودیہ سے دوستی کرتا ہے بالکل دنیا مختلف ہوچکی ہے چیلنجز کی نوعیت بھی بدل رہی ہے اور چھوٹے ممالک کی خوش قسمتی بھی ہے کہ امریکہ سول سپرپاور نہیں ہے اس کے لئے بڑی طاقتیں آگے آرہی ہیں۔ آئندہ کی صدی میں نالج، اقتصادیات اور دوستیاں کسی بھی ملک کے لئے تین اہم فیکٹر ہونگے۔ نیا ورلڈ آرڈر پرانے سے مختلف ہوگا۔ روس ایک بڑے پلیئر کے طور پر سامنے آرہاہے مغرب سے مدد کے بعد اپنے مسائل سے نکل چکا ہے طاقت بن کر آرہاہے چین نے بھی بین الاقوامی کردار بنا لیا ہے۔ اب دنیا میں بڑی طاقتیں امریکہ، چین اور روس ہیں یورپی یونین بھی بڑے پلیئر کے طورپر سامنے آرہا ہے لیکن جو ممالک امریکہ کے ساتھ نتھی تھے اب اس کے ساتھ منسلک نہیں ہیں کسی بھی ریجن کی کامیابی کے لئے اقتصادی طور پر اور پارٹنر شپ میں مضبوط ہونا ضروری ہوگیاہے۔ نئے عالمی نظام میں بڑی طاقتوں اور ریجن میں الگ الگ پولیٹکس ہوگی۔ ان دونوں سطحات میں دوستی اور مخالفت ساتھ ساتھ ہونگے امریکہ و روس میں تعلقات بہتر بھی ہونگے مقابلہ بھی ہوگا جبکہ چین کے ساتھ تعلقات میں بھی ایسا ہی ہوگا کیونکہ چین نے امریکہ میں سرمایہ کاری کی ہے پچھلے بیس سالوں میں نئے طالبعلموں کو پڑھنے کے لئے امریکہ اور یورپی ملکوں میں بھیجا ہے تاکہ زبان، سائنس، ٹیکنالوجی سیکھ سکیں اور یہ بات بھی اہم ہے کہ چائنہ کے 90 فیصد طالبعلم واپس چین آتے ہیں آئندہ صدی میں نالج اور ٹیکنالوجی اہم ہے جبکہ ماضی میں ایسا نہیں تھا۔ نیا ورلڈ آرڈر مشکل ہوگا جس میں دوستی اور مخالفت ہوگی لیکن وہی طاقت بن کر ابھرے گا جو اقتصادی، نالج ٹیکنالوجی اور پارٹنر شپ میں آگے ہوگا۔ نئے ورلڈ میں امریکہ بے معنی نہیں ہوگا ہاں البتہ امریکہ سول سپر نہیں رہا۔
تسنیم نیوز:نئی طاقتیں جیسا کہ ایران، بھارت، برازیل اور شمالی کوریا ابھر کر سامنے آرہی ہیں کیا سمجھتے ہیں ان کے پاکستان پر کیا اثرات ہونگے؟
ڈاکٹر حسن عسکری: ریجنل سطح پر کچھ ریاستیں بڑے پلیئر کے طور پر سامنے آرہی ہیں۔ مڈل ایسٹ میں ایرانی لیڈر شپ نے کافی حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرکے یورپ اور امریکہ سے نیوکلئیر ڈیل کی ہے کیونکہ ایران یہ سمجھتا ہے کہ ان کی اصل پاور تیل اور گیس ہے۔ اگر اقتصادی پابندیاں ختم ہوتی ہیں تو ایران میں اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لئے پوٹینشل زیادہ ہے۔ ان طاقتوں کے ابھرنے سے ایک اثر یہ ہوگا کہ امریکہ کو مڈل ایسٹ یا کسی بھی ریجن میں جانے کے لئے مذاکرات کرنے پڑیں گے۔ مڈل ایسٹ میں ایران، سعودیہ اور ترکی نئی طاقتیں بن کر ہی ابھریں گی۔ جنوبی ایشیاء میں بھارت اقتصادی اور فوجی لحاظ سے نمایاں ہورہاہے کیونکہ بھارت کی اپنی اقتصادیات مضبوط ہے اور بیرونی انوسٹ جس میں امریکی صدر ٹرمپ کی بھی بزنس انوسٹمنٹ شامل ہے، نئی طاقتیں ریجنل پولیٹکس کے لئے اہم ہونگییں، میں سمجھتا ہوں ریجن کی چھوٹی ریاستوں کی مشکلات میں اضافہ ہوجائے گا ان ریاستوں کی ڈومینیشن علاقوں میں تقسیم ہونے کے خدشات نظر آتے ہیں۔
تسنیم نیوز: شام میں حلب کی آزادی سمیت حزب اللہ کا کردار بنیادی اور نمایاں ہے حزب اللہ نظریہ ولایت فقیہ کے پیروکار ہیں تو یہ انقلاب اسلامی کی فتح ہے، تمام تر سازشوں کے باجود اس کامیابی میں آئیڈیالوجی بنیادی عنصر ہے آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری: ایران، حزب اللہ جو شام میں جنگ لڑ رہے ہیں ایک نظریاتی جنگ میں مگن ہیں۔ دوسری طرف داعش بھی نظریاتی جنگ لڑ رہی ہے لیکن امریکہ گلوبل پاور کے لئے جنگ کررہاہے کیونکہ امریکہ حافظ اسد اور بشار اسد سے بہت تنگ تھا کیونکہ امریکہ کی ریڈیکل لائن اسرائیل ہے۔ امریکہ حزب اللہ، حماس، ایران کی ریڈیکل لائن کو پسند نہیں کرتا وہ چاہتا ہے کمپرومائز ہو لیکن یہ تنظیمیں اس کے لئے تیار نہیں ہیں امریکہ اپنی اس گلوبل پالیسی میں اپنی مخالف طاقتوں کو ختم کرنا چاہتا ہے اس جدوجہد میں امریکہ افغانستان اور عراق میں ڈائریکٹ گیا وہاں نتائج برآمد نہ ہوئے تو لیبیا اور شام میں بلا واسطہ گیا۔ امریکہ یہ چاہتا ہے کہ شام میں بشار الاسد کی جگہ ایسی حکومت آجائے جو امریکہ مخالف نہ ہو۔ میں سمجھتا ہوں بشار الاسد کے بچنے کی دو وجوہات ہیں کیونکہ شام کی فوج میں چند ایک جرنیل کے سوا سب نے ساتھ دیا ہے سیاسی قیادت نے بشار الاسد کا ساتھ دیا۔ دوسری وجہ ایران اور روس بھی بشار اسد کے ساتھ ہیں۔
تسنیم نیوز: جنرل راحیل شریف کے سعودیہ عرب کے دورہ اور عسکری بلاک کی سرپرستی کے بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری: پاکستان اور سعودیہ عرب کے مابین ایوب خان کے دور سے تعلقات کا آغاز ہوا اور ماضی میںبھی پاکستان کی فورسز جاتی رہی ہیں اب بھی بہت سے ریٹائرڈ افسران جاتے ہیں ایسے لوگ جو وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ لیتے ہیں وہ اس میں انفرادی طور پر جائیں گے جنرل راحیل شریف سعودیہ عرب گئے ہوئے ہیں ان کو پہلے بھی ایک آفر تھی اور کہا جارہا ہے آفر انہیں ملی ہے اس بارے کچھ کہا نہیں جاسکتا جو ایک نئی فورس بنے گی وہ اس کے کمانڈر انچیف ہوسکتے ہیں اگر یہ فورس بن جاتی ہے تو یہ سعودی فورس ہوگی۔ یہ فورس کوئی موثر فورس ثابت نہیں ہوگی کیونکہ دنیا بھر میں بسنے والے مسلمان سیاسی اور نظریاتی طور پر بھی ایک نہیں ہیں۔ جس فورس کا تذکرہ ایک سال سے زائد عرصہ سے سنا جارہا ہے وہ صرف کاغذ پر موجود ہے۔ اس فورس میں اگر پاکستان، ترکی اور مصر کی فوج جو کہ پروفیشنل ملٹری کے لحاظ سے مضبوط ہیں، شامل نہ ہوئی تو یہ ایک غیرموثر فورس ہوگی کیونکہ اس کے علاوہ مسلمان ممالک بالخصوص عرب ممالک کی فوجیں کمزور قسم کی فوجیں ہیں۔ ابھی اس بات کا بھی علم نہیں ہے کہ یہ فورس کس طرح سے آپریٹ کرے گی اگر کسی مسلمان ملک کو ضرورت ہوگی تو کیا یہ ان کی مدد کرے گی؟ یہ ایک سوال ہے کیونکہ مڈل ایسٹ میں باہم اتفاق بھی نہیں ہے۔ روس اور امریکہ کا معاملہ تو الگ مڈل ایسٹ کی طاقتیں جن میں سعودیہ عرب اور دوسرے عرب ممالک بشار اسد کو گرانا چاہتے ہیں دوسری طرف امریکہ،داعش اور القاعدہ بھی یہی چاہتی ہے۔ اس لئے ابھی یہ سمجھنا محال ہے کہ یہ فورس کس طرح سے بنے گی اور کس طرح کام کرے گی۔ بصورت دیگر اگر مڈل ایسٹ متحد ہوجائے لیکن اس میں ایران شامل نہیں ترکی بھی دلچسپی نہیں لے رہا ہے، میرے خیال میں یہ کوئی پریکٹیکل پروجیکٹ نہیں ہے البتہ سعودیہ کاغذی کارروائی کرتے ہوئے ایک ایسی فورس بنارہی ہے جس کا بنیادی کام سعودیہ کا دفاع کرنا ہوگا۔
تسنیم نیوز: ایرانی صدر گزشتہ سال پاکستان آئے تو پاکستانی میڈیا پر کلبھوشن یادیو کامعاملہ اٹھایا گیا۔ ایسے اقدامات سے کیا ہم پڑوسی ممالک سے تعلقات خراب نہیں کر بیٹھیں گے جب کہ انڈیا ور افغانستان سے تعلق پہلے سے ہی خراب ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری: ایران پاکستان ریلیشن شپ بہتر ہونے کا سکوپ ہے۔ دونوں ملکوں میں دہشت گردی کا مسئلہ اب کنٹرول ہوچکاہے۔ پاکستان کی ملٹری نے بلوچستان میں کافی حد تک دہشت گردی پر کنٹرول حاصل کیا ہے جن کی وجوہات سے پاک ایران تعلقات میں مسائل پیدا ہوتے تھے۔ ایران سے تعلقات میں بہتری کے لئے ماسوائے اقتصادیات کے کوئی نظریہ شامل نہیں ہوگا۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں دو قسم کی مشکلات ہیں نوازشریف کا سعودی رائل فیملی کی طرف جھکاؤ زیادہ ہے تو دوسری طرف بدقسمت مذہبی انتہا پسندی بڑھ چکی ہے۔ اس لئے ریاستی تعلقات میں بھی یہ ایشو آجاتا ہے وہ تمام مذہبی تنظیمیں جو سعودیہ کی طرف جھکاؤ رکھتی ہیں وہ ایران کے خلاف ہیں شیعہ تنظیموں کا جھکاؤ ایران کی جانب ہے۔ تمام مذہبی جماعتیں ماسوائے جماعت اسلامی کے کسی ایک سیکٹ سے تعلق رکھتی ہیں۔ ایران سے تعلقات کی بات چلتی ہے تو بہت سے تنظیمیں اسے مسلکی فریم میں دیکھتی ہیں اس لئے تعلقات میں مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ جبکہ پاکستان کے ایران کے ساتھ تعلقات میں مسلکی اختلاف کو آڑے نہیں آنا چاہئے۔
تسنیم نیوز : تو محترم ایران کے ساتھ تعلقات تو قدیمی، ثقافتی اور مذہبی بنیادوں پر ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری: ایران کے ساتھ پرانے اور روایتی تعلقات ہیں۔ ہماری قومی زبان اردو میں ترکی، عربی سے زیادہ فارسی زبان شامل ہے۔ جنرل ضیاء الحق کے دور سے مخصوص کوششوں سے فارسی کو پیچھے اور سعودی اثر رسوخ بڑھانے کے لئے ایک پالیسی دکھائی دیتی ہے۔ فارسی پاکستان کے اسکولوں میں پڑھنے والوں کی تعداد بہت کم ہے حتیٰ کہ پاکستان میں ہائر ڈگری کے لئے فارسی کو لازمی قرار دیا جاتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔ اس لئے ہمارا ایران سے ثقافتی رابطہ بھی کم ہوگیا ہے۔ سنٹرل ایشاء سے ہمارا تعلق فارسی و ترکی زبان سے دوری کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ ایران سے تعلقات کی بہتری کوئی مشکل ہدف نہیں اور پاکستان کے ساتھ ساتھ ایران کو پاکستان کے ساتھ تعلقات میں بھی بہتری لانے کی کوششیں کرنے چاہئے۔ پاک ایران تعلقات سے افغانستان سے تعلقات بہتر ہونگے۔ ایران کے ساتھ عملی طور پر بہتر کرنے سے ہی اچھے ہونگے ایران کا ہدف اقتصادی طور پر مضبوط ہونا ہے۔ ایران گیس پائپ لائن کے لئے خواہش مند ہے جس کے لئے پاکستان کی حکومت لفظی طور پر بنانے کے لئے تیار ہے لیکن عملی طور پر نہیں۔ ایران سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں اگر دوکام کئے جائیں ایرانی حکومت گیس کی آفر کرتی ہے گیس لینے سے آئندہ دس سال کی ضرورت کے پیش نظر، یہ اہم بھی ہے یوں ایران کا پاکستان سے اقتصادی مفاد مضبوط ہوجائے گا۔ پاکستان تربت و گوادر میں ایران سے سو میگا واٹ بجلی لے رہاہے ایران زاہدان کی طرف سے ایک ہزار میگا واٹ سے زائد کی آفر کرتا ہے لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جبکہ یہ بلوچستان کی ضروریات سے بھی زیادہ ہے۔ گیس کے بعد بجلی کی ڈیماند اگر ایران کے علاوہ ازبکستان سے لینے کے بعد بھی پوری نہیں ہونے والی ہے جبکہ سنٹرل ایشیاء سے پاکستان کاسا ایک ہزار کی بات کرتاہے جو ممکن نظر نہیں آتا۔ اس لئے بجلی کے لئے ٹرانسمیشن لائن کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ افغانستان سے گزرنا لازمی ہے اس لئے یہ ممکن نظر نہیں آرہا۔
تسنیم نیوز : آپ کیا سمجھتے ہیں پاک ایران گیس پائپ لائن تاخیر کا شکار کیوں ہے؟
ڈاکٹر حسن عسکری: یہ پراجیکٹ 1996 سے جاری ہے۔ امریکہ کی طرف سے اقتصادی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان کو انٹرنیشنل فنڈنگ نہیں ہوئی پاکستان کی اپنی اقتصادی صورتحال بھی ایسی نہیں کہ گیس پائپ لائن خوب بنا لے اس لئے پاکستان ڈرتا ہے کہ جو امریکی ایڈ ملتی ہے وہ رک نہ جائے۔ پابندیاں ختم ہوچکی ہیں اب پائپ لائن پر کام کیا جاسکتا ہے پاکستان کی حکومت کہتی ہے ایران سے گیس کا سابقہ صدر زرداری نے جو معاہدہ کیا تھا اس میں پرائس زیادہ ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ قطر سے شپ کے ذریعہ سے پاکستان میں جو ایل این جی آتی ہے اس کی اصلی قیمت کیا ہے یہ ہمیں معلوم نہیں ہے اور ایران سے جو گیس لینی ہے ان دونوں کی قیمت میں کیافرق ہے، لیکن ہمیں حکومت قیمتوں کے فرق بتانے سے قاصر ہے۔
تسنیم نیوز: سی پیک کے لئے چائنہ نے بھارت کو شامل ہونے کی دعوت دی ہے جو کہ ہمارا اذلی دشمن بھی ہے جبکہ ایران کو پاکستان کی طرف سے کوئی آفر نہیں دی گئی ایران انٹرسٹڈ بھی ہے؟
ڈاکٹر حسن عسکری: پاکستان ایران کو آفر کرے بھی اس وقت تو وہ کاغذی کارروائی ہی ہوگی جب گوادر مکمل طور پر آپریشنل ہوگا ایران کا انٹرسٹ ہوگا کہ گوادر سے آگے لنک ہوجائے سی پیک مکمل ہونے کے بعد دس سال بعد جو صورتحال ہوگی تو ایران لنک ہونا چاہے گا گوادر کو چاہ بہار سے زیادہ خطرہ نہیں ہے۔ چابہار ایران کے اندر ہے جبکہ گوادر سڑکوں اور ریلوے لنک ہے یہی سڑک افغانستان سے لنک ہوگی۔ پاکستان بھارت کو چاہ بہار سے ٹریڈ کرنے کو کہتا ہے کیونکہ انڈیا سنٹرل ایشیاء افغانستان جانا چاہتا ہے پاکستان واہگہ سے رسائی نہیں دے رہا تو اس صورت میں بھارت پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لئے ایران سے جانے کی دھمکی دیتا ہے۔ انڈیا کو اقتصادی راہداری کا فائدہ نہیں ہے جب تک انڈیا کو سنٹرل ایشاء سے لنک نہیں ملتا، پاکستان کے مطابق اگر انڈیا اپنا سامان سنٹرل ایشیاء بھیجے تو سوال یہ ہے کہ پاکستان کو کیا فائدہ ہوگا جبکہ یہی بھارت عالمی سطح پر پاکستان کو دہشت گرد قرار دینے کے لئے کوشاں ہے بھارت سے تعلقات میں بہتری کے بعد ہی یہ رسائی دینی چاہئے۔
تسنیم نیوز : کشمیر میں جاری تحریک آزادی کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
ڈاکٹر حسن عسکری: کشمیر میں جوانوں کی تحریک آزادی مقامی ہے یہ ایک مضبوط اور ناختم ہونے والی تحریک ہے البتہ تحریکوں کی زندگی میں عروج و زوال آتا رہتا ہے اس جدوجہد کابنیادی منبع انڈین کشمیر ہے اس تحریک کو پاکستان کی طرف سے بیرونی سپورٹ بہت ہی کم ہے امریکہ، روس، چین جیسی بڑی طاقتیں اس مسئلہ کا حل نہیں چاہتیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت اس مسئلہ کو خود ہی حل کریں۔ تاہم ان دونوں ممالک میں جنگ نہ ہو کیونکہ یہ نیوکلیئر پاور ہیں،کشمیر کا مسئلہ اس وقت ہی حل ہوگا جب بڑی طاقتیں کشمیر پر واقعی پریشر ڈالیں کہ پہلے چھوٹے مسائل کو حل کریں تو تعلقات میں بہتری آئے گی بعد میں کشمیر کا مسئلہ حل ہوتا نظر آتا ہے۔
تسنیم نیوز: جب مارشل لاء لگتا ہے تو لوگ کہتے ہیں جمہوریت ہی اچھی تھی جب جمہوریت آتی ہے تو عوام کہتی ہے مارشل لاء کا زمانہ اچھا تھا، آپ کیا سمجھتے ہیں کونسا حکومتی نظام بہترہے؟
ڈاکٹر حسن عسکری: دونوں نظاموں میں مسائل ہیں، مارشل لاء آتا ہے تو وقتی طور پر مسائل کو حل کرتا ہے لیکن سیاسی و اقتصادی مسائل کو حل نہیں کر پاتا۔ سیاسی مسائل میں جمہوریت اور کرپشن مل چکے ہیں سوال یہ ہے کہ جمہوریت کس کے لئے ہے اشرافیہ اور کرپشن کے لئے ہے یا عوام کے لئے؟ جمہویت تب تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک عوام کی بہتری کے لئے کام نہیں کرے گی۔ پاکستان میں جمہوریت یا کوئی بھی نظام کامیاب نہیں ہوگا چاہے فوجی ہو یا سول۔ آپ عوام کی صورتحال بہتر نہیں کرتے یا آپ سے عام آدمی کو کوئی فائدہ نہیں یعنی عام آدمی چاہتاہے اس کا کچن چل جائے، بچوں کی تعلیم ہو، اس کا مریض اسپتال کے فرش پر نا مرجائے۔ اس لئے اگر قوم بنانی ہے تو تعلیم، فنون اور صحت پر خرچ کیا جائے پاکستان کا ریاستی نظام عام آدمی کے لئے نہیں ہے اس لئے انتہاپسندی بڑھ رہی ہے کیونکہ نوجوان اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی اپنا مستقبل نہیں دیکھ رہا ہوتا۔