قطر اور آل سعود کی جنگ دو ملکوں کی نہیں بلکہ دو مکاتب فکر کی جنگ ہے
شامی مفکر اور عالم قرآن ڈاکٹر محمد شحرور نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ موجودہ مشکل کا سبب قطر اور اخوان المسلمین نیز فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان بڑھتے تعلقات ہیں۔
خبر رساں ادارہ تسنیم: شامی مفکر اور عالم قرآن ڈاکٹر محمد شحرور نے اپنے فیس بک پیج پر لکھا ہے کہ موجودہ مشکل کا سبب قطر اور اخوان المسلمین نیز فلسطینی مزاحمتی تحریک حماس کے درمیان بڑھتے تعلقات ہیں۔ سعودی عرب نے اخوان المسلمین کے بڑھتے افکار اور عرب دنیا پر اس کی چھاپ کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کی ہے اور قطر اور سعودی عرب کے درمیان آنے والا اختلاف در حقیقت وہابیت کی سربراہی اور قیادت کے سبب ہے جو اسلامی صیہونی مقابلے کے بجائے اب اسلامی اسلامی ہو گیا ہے۔
اور اس بات کہ ثبوت موجود ہیں کہ قطر اور ترکی نے اخوان المسلمین سے وابستہ دہشتگرد تنظیموں کی امداد کی ہے اور اسی بات نے سعودی عرب کو ناراض کر دیا ہے۔
حالانکہ یہ اختلاف کئی بنیادی وجوہات کی بنا پر ہے جو اس وقت اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے۔ ظاہرا ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی عرب، مصر، بحرین اور متحدہ عرب امارات اور ان کے دیگر ہمنوا ممالک قطر کے خلاف ایک خونریز جنگ چھیڑنے کا من بنا چکے ہیں جو وہابی اور اخوانی جنگ ہوگی۔ اگرچہ داعش کے تمام اعلیٰ عہدیدار سعودی عرب کے مکتب فکر سے فارغ التحصیل وہابی ہیں لیکن اس تنظیم کا سعودی عرب کی منشاء اور مفاد کے خلاف اقدام آل سعود کے لئے قابل قبول نہیں ہے۔ شام میں انتہائی ہولناک جرائم انجام دے رہے ہیں۔ دہشتگرد سعودی عرب اور اخوان المسلمین کے آلہ کار ہیں یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لہٰذا داعش سے جنگ کے دعوے محض مضحکہ خیز ہیں۔
اہلسنت کو جذب کرنے کے لئے سعودی عرب کی طرف سے ایک مہم کی شروعات ہو چکی ہیں۔ فلسطینی – صیہونی مصالحت کی مخالفت کرنے والی فلسطینی عوام کی اکثریت وہابیت کی مخالف اور اخوان المسلمین کی طرفدار ہے اور اخوان المسلمین عرب – صیہونی صلح کا انکار کرتا ہے۔ شاید قطر اور عرب تنازعہ کا اہم سبب ٹرمپ کی وہ پیشکش ہو جس میں انہوں نے سعودی شاہ سے اہلسنت اور صیہونیوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کے لئے کہا تھا۔
آل سعود چاہتے ہیں کہ عرب سربراہوں کو اپنے اعتماد میں لیا جائے کیوںکہ عرب عوام اور وہابیت کے درمیان بہت زیادہ فاصلہ ہے۔
سعودی عرب دیگر عرب ممالک کے ساتھ ایسے پیش آتا ہے جیسے ایک حاسد عورت اپنی سوتن سے پیش آتی ہے اور چاہتی ہے کہ اس کی سوتن ہلاک ہو جائے۔
آل سعود کو عرب اتحاد اور عاصفۃ الحزم میں شرمناک شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اخوانی - وہابی فکری جنگ کا اصل فاتح اخوان المسلمین ہے کیوںکہ عرب کی اکثر عوام انتخاب کی منزل میں اخوان المسلمین کا ساتھ دے گی۔ کاش یہ بات اخوان المسلمین بھی سمجھ جائے کہ اسے لوگوں کے دل و دماغ میں اپنی جگہ باقی رکھنے کے لئے قتل و خونریزی کے بجائے اتحاد، صلح، صداقت اور کفار و اسلام دشمن طاقتوں سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔