بھارت اور اسرائیل جیسی باطل قوتوں کے توڑ کیلئے پاک ایران دوستی کو تقویت دینے کا وقت آگیا ہے + تصاویر
پاکستان کے 70ویں یوم آزادی کے موقع پر مشہد میں تعینات پاکستانی قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ پاکستان اور ایران کے دشمن ایک ہیں اور میرے خیال میں یہ وہ وقت ہے کہ پاکستان اور ایران کو مل کر اپنی دوستی مضبوط کرنی ہوگی اور دہشت گردی کے گڑ بھارت اور اسرائیل کا مل کر مقابلہ کرنا ہوگا۔
پاکستان کے 70ویں جشن آزادی کے موقع پر خبر رساں ادارے تسنیم کو دئے گئے پاکستانی قونصل جنرل یاور عباس کے انٹرویو کا متن من و عن پیش خدمت ہے؛
تسنیم: جشن آزادی کے موقع پر پاکستانی قوم کو کیا پیغام دینا چاہیں گے؟
یاور عباس: جشن آزاد کے پرمسرت موقع پر میں حکومت پاکستان کی جانب سے مشہد میں مقیم تمام پاکستانیوں کو تہہ دل سے مبارک باد کہتا ہوں۔ اللہ کرے کہ ہمارا ملک اسی طرح ترقی کی راہ پر گامزن رہے۔
تسنیم: پاکستان کے بدلتے ہوئے حالات کے پیش نظر کیا ن لیگ 5 سالہ دورہ مکمل کر پائے گی؟
یاور عباس: موجودہ حکومت کے کچھ مہینے ہی باقی رہتے ہیں موجودہ حکومت اپنا پانچ سالہ دورہ تقریبا مکمل کرنے والی ہے۔ کچھ دن پہلے ہم نے دیکھا کہ اقتدار پرامن طریقے سے منتقل ہوا۔ تو یہ جمہوریت کی خوبصورتی ہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں جمہوری اقتدار کی جڑ مضبوط ہوچکی ہے۔ موجودہ حکومت کو کافی چیلنجز کا سامنا ہے اس کے باوجود، حکومت نے کافی ایسے اقدامات کئے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں خوشحالی آئی ہے، مثال کے طور پر سی پیک کے جتنے بھی معاہدے ہیں جوکہ پاکستان میں آنے والے سالوں میں خوشحالی لے کر آئے گا، تو میرے خیال میں چینلجز دنیا کے ہر ملک میں ہوتے ہیں، ہر معاشرے میں ہوتے ہیں اور ہر سیاسی پارٹی کو ہوتے ہیں، الزامات بھی لگتے ہیں۔ لیکن جمہوریت کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس کے باوجود ملک کو ترقی کے راستے پر گامزن کئے ہوئے ہیں۔
تسنیم: آپ تین چار سالوں سے مشہد میں مقیم ہیں، بعنوان قونصل جنرل پاکستان، اس مدت میں آپ نے دونوں ملکوں کے تعلقات کے فروغ کے لئے کیا خدمات انجام دیئے ہیں؟
یاورعباس: پاکستان اور ایران دوست اور برادر ممالک ہیں، الحمدللہ ہمارے تعلقات صرف سیاست تک محدود نہیں ہیں بلکہ ثقافتی طور پر، معاشی طور پر دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہت زیادہ قریب ہیں۔ قونصلیٹ آف پاکستان مشہد پچھلے کئی سالوں سے دونوں ملکوں کے روابط بڑھانے میں اہم کردار ادا کررہا ہے۔ ہم نے ہر موقع پر مختلف قسم کے پروگرام منعقد کئے جس میں مشہد میں رہنے والے ایرانیوں کو پاکستان کا اصل تشخص اجاگر کیا ہے، اس کے علاوہ پاکستان کے مختلف دورے ہوئے ہیں، جس طرح کہ پاکستان سے کچھ دن پھلے ہی چئیرمین سینٹ تشریف لائے تھے، سینٹ کے ایک وفد کے ساتھ، انہوں نے مشہد میں اہم ملاقاتیں کی اور کافی اس طرح کی جتنے بھی دورے کئے گئے ہیں پاکستان سے، اس سے پہلے سردار ایاز صاحب آئے تھے، جو کہ ایک پارلمانی وفد کی سربراہی کررہے تھے، انہوں نے بھی مشہد میں اہم ملاقاتیں کیں، تو مختلف شعبوں میں چاہے وہ سیاسی ہو ثقافتی ہو، معاشی ہوں یا مذہبی ہوں اس میں ہماری یہ کوشش ہے کہ ہم ایران کے قریب آئیں اور پاکستان کا جو تشخص ہے وہ یہاں کے لوگوں کے سامنے واضح کریں۔
تسنیم: پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کئی سالوں سے اٹکا ہوا ہے، مسلم لیگ ن کی چار سال حکومت گزرنے کے باوجود کوئی بھی اقدام نہیں کیا گیا، آپ کے خیال میں آنے والی حکومت چاہے جس پارٹی کی بھی ہو، کے آنے سے کیا یہ منصوبہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا؟
یاور عباس: بات یہ ہے کہ ایران پر عالمی پابندیاں عائد تھیں جس کی وجہ سے ایران کے ساتھ بینکاری کرنا تاحال ناممکن تھا، نہ صرف یہ مسئلہ پاکستان کو درپیش تھا بلکہ دنیا کے بہت سارے ممالک ایران کے ساتھ رسمی طور پر بینکاری نہیں کرسکتے ہیں۔ آئی پی آئی جو گیس پائپ لائن ہے یہ ایک چھوٹا پروجیکٹ نہیں ہے یہ ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ اس پر اربوں ڈالر کی انویسمنٹ ہے اور ایران پر پابندیوں کی وجہ سے ابھی تک کوئی بھی عالمی بینک پاکستان کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار نہیں تھا، نہ عالمی بینک نہ ایشیایی ترقیاتی بینک، اسی وجہ سے یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوا لیکن جب بھی پاک ایران حکام کے درمیان ملاقات ہوتی ہے، تو اس بات کا دونوں اقرار کرتے ہیں کہ بیشک تاخیر ہوئی بھی ہو، پھر بھی ہم اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔
وزیراعظم نواز شریف جب ایرانی صدر روحانی سے ملے تھے تو انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا تھا کہ اس منصوبے کو انشاء اللہ پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے، تو دونوں ممالک اس سلسے میں پر عزم ہیں معاشی مشکلات درمیان میں ہیں جو پابندیوں کی صورت میں ہیں، اب الحمدللہ ایران کی مرکزی اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے ہیں جس کے بعد اب دونوں ممالک کے درمیان رسمی طور پر بینکاری کا سلسلہ شروع ہوجائیگا۔ انشاءاللہ اس کے بعد ہمیں امید ہے کہ یہ پروجیکٹ بہت جلد پایہ تکمیل تک پہنچ جائے گا۔
تسنیم: کشمیر کے حالات میں بھی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں، درمیان میں داعشی دہشت گرد اپنے نام نہاد اسلامی پرچم لئے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، ذاکر موسی کہہ رہا ہے کہ ہم نے جدوجہد آزادی کشمیر کا نعرہ نہیں لگانا بلکہ اسلامی خلافت قائم کرنے کے لئے جدوجہد کرنا ہے، جیسا کہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ سید صلاح الدین اور دیگر حریت رہنماؤں نے ان کے اس بیان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے، اس سلسلے میں آپ کیا کہتے ہیں اس کے پیچھے کس قسم کے محرکات ہوسکتے ہیں؟
تسنیم: دیکھیں داعش میں ایک سو بیس ممالک کے لوگ شامل ہیں، داعش کے جنگجو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ہیں اس گروہ میں کسی خاص ملک یا مکتب فکر کے لوگ نہیں ہیں، اس میں مختلف علاقوں کے لوگ ہیں اور مختلف علاقوں میں داعش موجود ہے۔ بعض علاقوں خاص کر عراق اور شام میں یہ لوگ متحرک ہیں لیکن بعض علاقوں میں موجود ہیں لیکن متحرک نہیں ہیں کیونکہ ہر ملک کی سیکورٹی صورتحال دیگر ممالک سے مختلف ہوتی ہے تو کشمیر میں بھی اس قسم کا کوئی گروپ ہے اور کسی نے میڈیا میں دے دیا ہے کہ ہمارا تعلق داعش سے ہے اور ہم پاکستان کا جو اصولی موقف ہے، اس کو نہیں مانتے تو اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ دہشت گرد کسی قانون یا اصول کو نہیں مانتے، ہم کشمیر کے بارے میں پاکستان کے اصولی موقف کے مخالفین کو خواہ وہ جو بھی ہو، مسترد کرتے ہیں، پاکستان کا کشمیر کے بارے میں موقف بہت اصولی اور بالکل واضح ہے کہ جب تک کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت نہیں دیا جائے گا تب تک پاکستان سکون کا سانس نہیں لے گا اور کشمیریوں کی ہرقسم کی حمایت کرےگا۔
تاہم زیادہ خطرناک بات کشمیر میں یہ ہے کہ پچھلے ایک دو سالوں سے بھارت نے کشمیر میں جو ظلم و ستم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں اس سے ان کا اصلی چہرہ پوری دنیا کے سامنے آگیا ہے، پوری دنیا کی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اپنی رپورٹوں میں انڈیا کے مظالم کی نئی داستانیں رقم کی ہیں۔ اس وقت بھارت پر بہت زیادہ پریشر ہے کہ وہ مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان سے معنی خیز مذاکرات کرے اور آپ نے دیکھا ہوگا کہ وقتا فوقتا مختلف سربراہان مملکت بھارت کو یہ چیز باور بھی کراتے ہیں، دوسرے ممالک، مثال کے طور پر امریکہ اور بھارت کے بڑے قریبی تعلقات ہیں، امریکہ کے موجودہ صدر نے بھی بھارت پر دباو ڈالا ہے کہ وہ کشمیر کا مسئلہ پاکستان کے ساتھ معنی خیز مذاکرات کرکے حل کرے، اس کے علاوہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ عرصہ پھلے بھارت کے وزیراعظم اسرائیل گئے تھے اور نیتن یاہو کے ساتھ ملاقاتیں رہیں، اس دورے کے بعد بھارت کا اصل چہرہ پوری دنیا کے سامنے آچکا ہے، یہ دونوں ممالک انسانی حقوق کو پامال کرتے ہیں، اسرائیل اور بھارت پر عالمی برادری کی طرف سے بہت زیادہ پریشر ہے کہ مسئلہ فلسطین اور مسئلہ کشمیر حل کریں۔ انہی ممالک کے تانے بانے ہر قسم کے دہشت گردی سے جڑتے ہیں۔
تسنیم: کیا آپ نہیں سمجھتے ہیں کہ ان دونوں باطل قوتوں کا توڑ خطے میں صرف اور صرف ایران اور پاکستان ہوسکتے ہیں؟
یاور عباس: جی بالکل، ایران کی مغربی سرحد پر جو مشکلات ہے اس کے بارے میں وہ فکر مند ہے اور اسی طرح پاکستان بھی شمال مغرب اور مشرقی سرحد کے بارے میں فکرمند ہے تو دونوں ممالک کو دہشت گردی کے چیلنجز درپیش ہیں، ایران کو صہیونیوں سے شدید خطرہ ہے اور پاکستان کو بھارت کی طرف سے شدید خطرہ لاحق ہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اور ایران کے دشمن ایک ہیں اور میرے خیال میں یہ وہ وقت ہے کہ پاکستان اور ایران کو مل کر اپنی دوستی مضبوط کرنی ہوگی اور دہشت گردی کے جو گڑ ہیں، ان کا خندہ پیشانی سے سامنا کرنا ہوگا اور مل کر ان کا مقابلہ کرنا ہوگا۔